Blog
Books
Search Hadith

مغرب سے پہلے دو رکعتوںکا بیان

۔ (۲۰۸۵) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَیْنَ کُلِّ أَذَانَیْنِ صَلَاۃٌ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لِمَنْ شَائَ۔)) (مسند احمد: ۲۰۸۱۸)

سیدناعبد اللہ بن مغفل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، اُس کے لئے جو چاہے۔
Haidth Number: 2085
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۲۰۸۵) تخریج: أخرجہ مسلم: ۸۳۸ (انظر: ۲۰۵۴۴)

Wazahat

فوائد:… نماز مغرب سے پہلے والی دو رکعت نماز پر دلالت کرنے والے مزید دلائل بھی موجود ہیں،یہاں ان کا احاطہ مقصود نہیں ہے، البتہ ایک فعلی حدیث ذکر کر دیتے ہیں، تاکہ مسئلہ زیادہ واضح ہو جائے۔ سیدنا عبد اللہ مزنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلّٰی قَبْلَ الْمَغْرِبِ۔… رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں۔ (صحیح ابن حبان: ۱۵۸۶) علامہ سندھی حنفی نے کہا: ظاہر تو یہی ہے کہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں جائز بلکہ مندوب ہیں، میں منع کرنے والوں کے پاس کوئی شافی جواب نہ پا سکا۔ (حاشیۃ السندھی علی النسائی: ۱/ ۲۸۳،۲/ ۲۸) معلوم نہیں کہ بعض لوگ اس موضوع پر صحیح اور صریح روایات ہونے کے باوجود ان دو رکعتوں کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث کے تحت لکھا: اس حدیث ِ مبارکہ سے نمازِ مغرب سے قبل دو رکعت پڑھنے کی واضح مشروعیت ثابت ہوتی ہے، کیونکہکبار صحابہ نے ان کا اہتمام کیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو برقرار رکھا، دوسری عام احادیث سے بھی اس نماز کا ثبوت ملتا ہے ، مثلا سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَامِنْ صَلَاۃٍ مَفْرُوْضَۃٍ إِلَّا وَبَیْنَیَدَیْھَا رَکْعَتَانِ۔)) (صحیح ابن حبان: ۶۱۵، صحیحۃ: ۲۳۲)… نہیں ہے کوئی فرضی نماز، مگر اس سے پہلے (کم از کم) دو رکعت (نفلی نماز) ہے۔ امام احمد، امام اسحق اور محدثین کا یہی مذہب ہے، لیکن بعض مقلد مغرب سے پہلے دو رکعت نفل پر دلالت کرنے والی ان صریح احادیث کو ردّ کر دیتے ہیں۔ (صحیحہ: ۲۳۴)