Blog
Books
Search Hadith

تقدیر کے ساتھ عمل کرنے کا بیان

۔ (۲۱۵)۔ عَنْ أَبِیْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ السُّلَمِیِّ عَنْ عَلِیٍّؓ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ذَاتَ یَوْمٍ جَالِسًا وَفِیْ یَدِہِ عُوْدٌ یَنْکُتُ بِہِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ: ((مَامِنْکُمْ مِنْ نَفْسٍ اِلَّا وَقَدْ عُلِمَ مَنْزِلُہَا مِنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ۔)) قَالَ: فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَلِمَ نَعْمَلُ؟ قَالَ: ((اِعْمَلُوْا!فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ۔)) {أَمَّا مَنْ أَعْطٰی وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی، وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی وَکَذَّبَ بِالحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرٰی} (مسند أحمد: ۶۲۱)

سیدنا علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ہاتھ میں لکڑی تھی، آپ اس سے زمین کو کرید رہے تھے، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی منزل کا علم ہو چکا ہے کہ وہ جنت ہے یا جہنم۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر ہم عمل کیوں کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم عمل کرو، ہر ایک کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا ہے، وہ اس کے لیے آسان کر دیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا اور (اپنے ربّ سے) ڈرا اور نیک بات کی تصدیق کی۔ تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔ لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی اور نیک بات کی تکذیب کی۔ تو ہم بھی اسی کے لیے اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے۔ (سورۂ لیل: ۵ تا۱۰)
Haidth Number: 215
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۲۱۵) تخریج: أخرجہ البخاری: ۴۹۴۶، ۴۹۴۹، ۷۲۱۷، ومسلم: ۲۶۴۷ (انظر: ۶۲۱)

Wazahat

فوائد: …ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ نیکی اور اطاعت کی توفیق اس کو ملتی ہے، جو خیر کے امور سرانجام دینے اور محارم سے بچنے کے لیے مستعد ہو اور حسب ِ استطاعت ان کی پابندی کر رہا ہے، اس کے برعکس جو شخص بخل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے بے پرواہی برتتا ہے تو اس کے لیے برائیوں کے سلسلے کو برقرار رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ ایک مثال سے بات کو واضح کر دیتے ہیں، جب نمازِ فجر کا وقت ہوتا ہے، تو اس وقت بعض لوگوں کا سویا رہنا ان کے حق میں قیامت ِ صغری سے کم نہیں ہوتا اور اس وقت ان کو نیند ہی نہیں آتی، پس وہ سکون سے اٹھ جاتے ہیں اور نماز ادا کر کے اطمینان حاصل کر لیتے ہیں، لیکن بعض ایسے منحوس بھی ہوتے ہیں کہ اس نماز کے لیے اٹھنا ان پر اس قدر گراں گزرتا ہے کہ وہ سوئے رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، اول الذکر لوگ عمل صالح کرنے کی رغبت رکھتے تھے، سو ان کے لیے عمل آسان ہو گیا اور مؤخر الذکر میں یہ رغبت نہیں، پس وہ بڑے محروم ٹھہرے۔