Blog
Books
Search Hadith

وتر کی فضیلت، تاکید اور حکم کا بیان

۔ (۲۱۷۷) عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَلْوِتْرُ لَیْسَ بِحَتْمٍ کَالصَّلَاۃِ وَلٰکِنَّہُ سُنَّۃٌ سَنَّہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۷۶۱)

سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: وتر کی نماز فرضی نمازوں کی طرح حتمی نہیںہے، بلکہ یہ سنت ہے، جسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسنون قرار دیا ہے۔
Haidth Number: 2177
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۲۱۷۷) تخریج: اسنادہ قوی۔ أخرجہ الترمذی: ۴۵۳، ۴۵۴، وابن ماجہ: ۱۱۶۹، والنسائی: ۳/ ۲۲۸ (انظر: ۷۶۱، ۱۲۶۲)

Wazahat

فوائد:… نماز وتر کے واجب یا سنت ہونے کے بارے میں مذکورہ بالا اور دیگر کئی احادیث پائی جاتی ہیں، چونکہ بعض احادیث میں نماز وتر کا حکم بھی دیا گیا ہے، اسی قسم کی حدیث پر بحث کرتے شیخ البانی کہتے ہیں: اس حدیث میں نماز وتر پڑھنے کا حکم دیا گیا اور امر کا ظاہری معنی وجوب کا تقاضا کرتا ہے، احناف اسی کے قائل ہے، لیکن جمہور علما کے نزدیک نمازِ وتر واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے۔ اگر انتہائی قطعی دلائل کی روشنی میں ایک دن اور رات میں حصر کے ساتھ صرف پانچ فرض نمازوں کا تذکرہ نہ ہوتا تو احناف کا قول برحق ہوتا۔ لیکن ایک دن میں صرف پانچ نمازوں کی فرضیت پر دلالت کرنے والی احادیث کی روشنی مین یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس حدیث ِ مبارکہ میں دیا گیا حکم وجوب کے لیے نہیں، بلکہ استحباب کی تاکید کے لیے ہے۔ اس تاویل پر حیرانگی کی ضرورت نہیں کیونکہ احادیث مبارکہ میں مذکورہ کئی اوامر کو قطعی دلائل سے کم اہمیت والے قرائن کی روشنی میں وجوب سے پھیر دیا گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس معاملے احناف نے خود امر کے حقیقی معانی سے انحراف کیا ہے اور نماز وتر کو پانچ نمازوں کی طرح واجب نہیں قرار دیا۔ ان کا خیال ہے کہ فرض نمازوں اور سنت نمازوں کے درمیان کا مرتبہ نماز وتر کا ہے، ثبوت کے لحاظ سے یہ نماز، فرض نمازوں سے کمزور اور تاکید کے اعتبار سے سنت نمازوں سے قوی ہے۔ واضح رہے کہ حنفیوں کے اس قول کی بنیاد ان کی مخصوص اور جدید اصطلاح پر ہے، صحابہ کرام اور سلف صالحین اس اصطلاح سے غیر متعارف تھے۔ اِن کا خیال ہے کہ ثبوت اور ثواب کے لحاظ سے واجب اور فرض میں فرق ہے، ان کی کتب میں مزید تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ احناف کی اصطلاح کا مطلب یہ ہوا کہ وتر کی نماز ترک کرنے والے کو فرض نماز ترک کرنے والے کی بہ نسبت کم عذاب دیا جائے گا، یہی ان لوگوں کے تقلیدی مسلک کا تقاضا ہے۔ اِن سے پوچھا جائے گا کہ جب ایک بدو نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے اپنے عزم کا یوں اظہار کیا تھا کہ وہ ان پانچ فرض نمازوں کی ادائیگی میں کوئی کمی نہیں کرے گا، لیکن ان سے زیادہ بھی نہیں پڑھے گا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر یہ آدمی اپنے دعوے میں سچا ہے تو کامیاب ہو جائے گا۔ (بخاری، مسلم) سوال یہ ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صرف پانچ نمازوں کی ادائیگی پر کامیابی کی جو بشارت سنائی ہے، کیا اس کے ساتھ وتر کی نماز ترک کرنے کی وجہ سے عذاب بھی ہوگا؟ کوئی شک نہیں کہ بدو کے عزم پر کامیابی وکا مرانی کی بشارت سنانا وتر کو غیر واجب ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، اسی لیے جمہور علما کا اِس نماز کے سنت ہونے اور واجب نہ ہونے پر اتفاق ہے اور یہی مسلک برحق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم خیر خواہی کرتے ہوئے اور وعظ و نصیحت کرتے ہوئے کہیں گے کہ نمازِ وتر کا اہتمام کیا جائے اور اس معاملے میں کاہلی و سستی برتنے سے گریز کیا جائے۔ واللہ اعلم۔ (صحیحہ: ۱۰۸) مزید دو دلائل پر غور کریں سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تھا، تو ان کو جو ہدایات دی تھیں، ان میں سے ایکیہ تھی: ((فَاَعْلِمْھُمْ اَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوٰاتٍ فِیْ الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ۔)) یعنی: ان کو بتلانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)) ہمارے نزدیک وتر کے واجب نہ ہونے کی سب سے واضح دلیلیہی حدیث ہے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے سیدنا معاذ کو یمن کی طرف بھیجا تھا، لیکن صرف پانچ نمازوں کی تعلیم دینے کی ہدایت کی تھی۔ قارئین کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ وتر نمازِ عشاء کا حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ رات کی علیحدہ نماز ہے، اگر اس کو فرض سمجھا جائے تو ایک دن رات میں چھ نمازیں بنتی ہیں، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی زندگی کے آخری ایام میں پانچ نمازوں کی تلقین کر رہے ہیں۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُسَبِّحُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ قِبَلَ اَیِّ وَجْہٍ تُوَجِّہُ وَیُوْتِرُ عَلَیْھَا غَیْرَ اَنَّہٗلَایُصَلِّیْ عَلَیْھَا الْمَکْتُوْبَۃَ۔… رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی سواری پر نفلی نماز پڑھتے تھے، جس جہت کی طرف وہ متوجہ ہوتی (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس چیز کی کوئی پروا نہ کرتے تھے) اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نمازِ وتر بھی سواری پر ادا کر لیتے تھے، لیکن فرضی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ (مسلم: ۷۰۰) اس حدیث سے پتہ چل رہا ہے کہ وتر نفل ہیں، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر اس کی ادائیگی کر لیتے تھے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صرف نفلی نماز سواری پر پڑھا کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ مجبوری میں فرض نماز بھی سواری پر ادا کی جا سکتی ہے۔ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اہل نجد میں ایک آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، …، اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: ((خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِیْ الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ۔)) قَالَ: ھَلَ عَلَیَّ غَیْرُھَا؟ قَالَ: ((لَا، اِلَّا اَنْ تَطَوَّعَ۔))… ایک دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اس نے کہا: کیا مجھ پر کوئی اور نماز فرض ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، الا یہ کہ تم نفل پڑھو۔ یہ ساری باتیں سن کر اس آدمی نے کہا تھا کہ میں نہ ان (فرائض) میں کمی کروں گا اور نہ ان سے زیادہ کچھ کروں گا۔ یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: اگر یہ آدمی اپنے دعوے میں سچا ہے تو کامیاب ہو جائے گا۔ (بخاری، مسلم) شیخ البانی نے اسی حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ امام احمد، امام شافعی، امام مالک اور جمہور علما کا بھییہی مسلک ہے کہ وتر کا حکم سنت مؤکدہ کا ہے۔ مذکورہ بالا دلائل کی روشنی مین یہ کہنا درست ہے کہ وتر نفلی نماز ہے، چونکہ یہ دلائل قوی ہیں، اس لیے جن احادیث ِ مبارکہ میں نمازِ وتر کا حکم دیا گیا ہے، اس حکم سے مراد استحباب لیں گے، نہ کہ وجوب، مذکورہ بالا احادیث اس حکم کو وجوب سے استحباب کی طرف پھیرنے کے لیے قرینہ صارفہ ہیں۔