Blog
Books
Search Hadith

پانچیا سات سے کم وتر نہ ہونے اور ایک رات میں دو وتر نہ ہونے کا بیان

۔ (۲۲۲۸) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ، فإِذَا انْصَرَفَ قَالَ لِیْ: ((قُوْمِیْ فَأَوْتِرِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۵۶۹۹)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات کو نماز پڑھتے رہتے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فارغ ہوتے تومجھے فرماتے: اٹھو اور وتر پڑھو۔
Haidth Number: 2228
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۲۲۲۸) تخریج: أخرجہ مسلم: ۷۴۴ (انظر: ۲۵۱۸۴)

Wazahat

(۲) سیدناثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ ھٰذَا السَّفَرَ جَھْدٌ وَثِقْلٌ، فَإِذَا أَوْتَرَ أَحَدُکُمْ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ، فَإِنِ اسْتَیْقَظَ وَإِلَّا کَانَتَا لَہُ۔)) چونکہ یہ سفر باعث ِ مشقت و زحمت ہے، اس لیے ہر کوئی وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھ لے، اگر (قیام کرنے کے لیے) جاگ آ گئی تو ٹھیک، وگرنہ یہی دو رکعتیں اسے کفایت کر جائیں گی۔ (الدارمي: ۱/۳۷۴، ابن خزیمۃ: ۲/۱۵۹/۱۱۰۳، ابن حبان: ۶۸۳، الدار قطنی: صـ ۱۷۷، صحیحہ:۱۹۹۳) (۲) پچھلی رات کے قیام اور وتر کے ابواب میں کئی احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نمازِ وتر کے بعد پھر دو نفل پڑھے تھے۔ ان احادیث میں جمع و تطبیق کی صورت یہ ہے کہ روٹین کے ساتھ نمازِ تہجد پڑھنے والے کو چاہیے کہ وہ آخر میں نمازِ وتر ادا کیا کرے، نیز وہ وتروں کے بعد مزید دو رکعات پڑھ سکتا ہے اور جو آدمی کسی عذر کی وجہ سے رات کے شروع میں ہی وتر سمیت نماز تہجد پڑھ لینا چاہتا ہو، تو وہ پڑھ لے، لیکن اگر وہ رات کے آخری حصے میں بیدار ہو جائے تو وتر توڑے بغیر مزید نفلی نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح وہ آدمی جو نماز وتر پڑھ کر سو جاتا ہو،لیکن رات کو اتفاقی طور پر کھڑا ہو کر نفلی نماز ادا کرنا چاہتا ہو تو وہ پڑھ سکتا ہے، اسے وتر توڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام ابن خزیمہ نے سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا: جو چاہے، وتر کے بعد نفلی نماز پڑھ سکتا ہے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وتر کے بعد جو دو رکعات ادا کرتے تھے، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خاصہ نہیں تھا۔ امام عبید اللہ مبارکپوری ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: ائمۂ اربعہ، امام ثوری اور امام ابن مبارک وغیرہ کا خیال ہے کہ نمازِ وتر کے بعد اس کو توڑے بغیر مزید نفلی نماز ادا کی جا سکتی ہے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں، ان علمائے کرام نے سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث میں دیے گئے حکم کو استحباب پر محمول کیا اور مزید نماز کی ادائیگی کو جائز سمجھا۔ جمع و تطبیق کی ایک اور صورت یہ بھی ہے کہ سیدنا عبد اللہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم رات کو قیام کرنا چاہو تو نمازِ وتر کو شروع میںیا درمیان میں ادا کرنے کی بجائے آخر میں ادا کرو۔ (مرعاۃ المصابیح: ۲/ ۴) اس دوسری تطبیق کا مفہوم یہ ہے کہ جو آدمی روٹین کے ساتھ رات کو قیام کرتا ہے، اس کو آخر میں نمازِ وتر ادا کرنی چاہیے، مثلا ہر کوئی رمضان میں نماز تراویح باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتا ہے، جو نمازِ تہجد ہی کی ایک صورت ہے، ایسی صورت میں اس حدیث کی روشنی مین یہ درست نہیں ہو گا کہ آٹھ رکعت تراویح سے پہلے یا چار رکعتوں کی ادائیگی کے بعد وتر پڑھ لیے جائیں اور باقی نماز بعد میں پوری کر لی جائے۔ لیکن اگر کوئی آدمی رات کو وتر کی نماز پڑھ لیتا ہے اور پھر اسے سابقہ روٹین کے بغیر قیام کرنے کا خیال آ جاتا ہے، یا اگر کوئی آدمی سفر یا کسی اور عذر کی وجہ سے رات کے آخری پہر کو بیدار نہ ہونے کا خطرہ محسوس کرتا ہے، تو اسے چاہیے کہ اس باب کی پہلی روایتیعنی سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث پر عمل کر لے۔ بہرحال دونوں صورتوں میں نمازِ وتر کے بعد دو رکعت ادا کرنا تو درست ہے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیام مکمل کرنے اور نماز وتر ادا کر چکنے کے بعد دو رکعتیں ادا کیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔