Blog
Books
Search Hadith

بغیر ضرورت کے علم کے بارے میں کثرت ِ سوال کی مذمت کا بیان

۔ (۲۶۶) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخر)۔ یَرْفَعُہُ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((أَعْظَمُ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ الْمُسْلِمِیْنَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرٍ لَمْ یُحَرَّمْ فَحُرِّمَ عَلَی النَّاسِ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۵۴۵)

۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مسلمانوں میں جرم کے لحاظ سے سب سے بڑا وہ آدمی ہے، جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے، جو حرام نہیں تھی، لیکن اس کے سوال کی وجہ سے لوگوں پر اس کو حرام کر دیا گیا۔
Haidth Number: 266
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۲۶۶) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الأول

Wazahat

فوائد:…سوال کی دو اقسام ہیں:(۱)وہ سوال جو ان امورِ دین سے متعلقہ ہو جو عام ضرورت ہونے کی وجہ سے توضیح طلب ہوتے ہیں، ایسا سوال کرناجائزہے، جیسے سیدنا عمر ؓ کا اور دوسرے صحابہ کا شراب کے بارے میں سوال کرتے رہنا، یہاں تک اسے حرام قرار دیا گیا، کیونکہ ضرورت کا تقاضا یہ تھا کہ اسے حرام قرار دیا جائے۔ اسی طرح ظالم امراء کی اطاعت کرنے، کلالہ، جوا، حیض، شکار اور حرمت والے مہینوں میں قتال کرنے کے بارے میں سوال کرنا، کیونکہ یہ ضروریات ہیں، سوال کی اسی قسم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ} … پس تم اہل علم سے سوال کرو، اگر تم خود نہیں جانتے۔ (سورۂ نحل: ۴۳) (۲)وہ سوال جو محض تکلف اور تعنت کی بنا پر کیا جائے، مثلا دورِ نبوی میں ایسی چیز کی حلت و حرمت کے بارے میں کریدنا شروع کر دینا، جس کو صحابہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے سامنے استعمال کر رہے ہوں اور اس میں کوئی مفسدت بھی نہ پائی جاتی ہو، ایسی چیز کے بارے میں پوچھنا جو ابھی واقع نہ ہوئی ہو یا جس کی کوئی ضرورت نہ ہو۔ مثلا: عذاب ِ قبر جیسے غیبی امور کی حقیقت کے بارے میں سوال کرنا، اسی طرح قیامت کے بارے میں ، روح کی حقیقت اور اس امت کی مدت کے بارے میں سوال کرنا یا کوئی ایسا سوال کرنا جس کا عمل سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اس اور دیگر احادیث میں ایسے سوالات سے منع کیا گیا ہے۔ جو سوالات محض تکلف کی بناء پر کیے جاتے ہیں، ان کی واضح ترین مثال موسیؑ کی قوم کا مطالبہ ہے، جب موسیؑ نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے، یہ حکم سن کر اگر وہ کوئی گائے بھی ذبح کر دیتے تو اللہ تعالیٰ کی منشا پوری ہو جاتی، لیکن انھوں نے سب سے پہلے تو کہا: اے موسی! ہمارے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے۔ پھر جب ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم کا علم ہو گیا تو انھوں نے پہلا سوال یہ تھا: اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اس کی ماہیت بیان کرے، جب وہ بیان کر دی گئی تو ان کا دوسرا سوال یہ تھا کہ اس کا رنگ کیا ہونا چاہیے، جب رنگ کی وضاحت کر دی گئی تو وہ پھر کہنے لگے کہ اس گائے کی مزید ماہیت بیان ہونی چاہیے، اس قسم کی گائیں تو بہت زیادہ ہیں۔ اس طرح جب بنو اسرائیل نے مین میکھ نکالنا اور طرح طرح کے سوالات کرنا شروع کر دیے، تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر سختی کرتا چلا گیا، اس لیے دین میں تعمق اور سختی اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حلال و حرام کے بارے میں شریعت نے بڑا آسان اور سادہ قانون پیش کیا ہے، سیدنا ابو الدرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ((مَا اَحَلَّ اللّٰہُ فِی کِتَابِہِ فَھُوَ حَلَالٌ، وَمَا حَرَّمَ فَھُوَ حَرَامٌ، وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ عَفْوٌ، َفاقْبَلُوْا مِنَ اللّٰہِ عَافِیَّتَہٗ، فَاِنَّ اللّٰہ لَمْ یَکُنْ یَنْسٰی شَیْئًا۔)) ثُمَّ تَلَا ھٰذِہِ الْآیَۃَ: {وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا} … اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو اپنی کتاب میں حلال کیا، وہ حلال ہیں۔ جن چیزوں کو حرام کیا، وہ حرام ہیں اور جن چیزوں سے خاموشی اختیار کی، وہ معاف ہیں۔ پس تم اللہ تعالیٰ سے اس کی عافیت قبول کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو نہیں بھولتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے یہ آیت تلاوت کی: اور تیرا رب بھولنے والا نہیں ہے۔ (مسند بزار) ایک اہم سوال: حلال و حرام کا فیصلہ محض اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے، تو پھر سوال کرنے والا مجرم کیوں ہے؟ جواب: حافظ ابن حجر نے کہا: بلا شک و شبہ تقدیر میں حلال و حرام کے فیصلے ہو چکے ہیں اور ایسے آدمی کے سوال کی وجہ سے حرام ہونے والی چیز پہلے بھی حرام ہی ہوتی ہے، اس کو مجرم ٹھہرانے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے محض تکلف اور تعنت کی بنا پر سوال کیا، حقیقت میں اس کو ایسا سوال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس حدیث میں جرم سے مراد گناہ ہے۔ (تلخیص از فتح الباری: ۱۳/ ۳۳۳)