Blog
Books
Search Hadith

حدیث لکھنے کی رخصت کا بیان

۔ (۲۹۶)۔عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْروٍ (یَعْنِی بْنَ الْعَاصِؓ) قَالَ: کُنْتُ أَکْتُبُ کُلَّ شَیْئٍ أَسْمَعُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُرِیْدُ حِفْظَہُ فَنَہَتْنِیْ قُرَیْشٌ فَقَالُوْا: اِنَّکَ تَکْتُبُ کُلَّ شَیْئٍ تَسْمَعُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَشَرٌ یَتَکَلَّمُ فِی الْغَضَبِ وَالرَّضَا، فَأَمْسَکْتُ عَنِ الْکِتَابِ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اکْتُبْ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ مَا خَرَجَ مِنِّیْ حَقٌّ۔)) (مسند أحمد: ۶۵۱۰)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے جو چیز سنتا تھا، اس کو یاد کرنے کے ارادے سے لکھ لیتا تھا، لیکن قریشیوں نے مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور کہا: تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے سنی ہوئی ہر بات لکھ لیتا ہے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ تو ایک بشر ہیں اور غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں گفتگو کرتے رہتے ہیں، چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ بات بتلا دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تو لکھ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھ سے صرف حق کا صدور ہوتا ہے۔
Haidth Number: 296
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۲۹۶) تخریج: اسنادہ صحیح ۔ أخرجہ ابوداود: ۳۶۴۶(انظر: ۶۵۱۰)

Wazahat

فوائد: …حافظ ابن قیم نے تہذیب مختصر سنن ابو داود: ۵/ ۲۴۵ میں کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا احادیث لکھنے سے منع کرنا اوراس کی اجازت دینا، یہ دونوں چیزیں ثابت ہیں، لیکن اجازت والی احادیث ناسخ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے غزوۂ فتح مکہ کے موقع پر فرمایا تھا: ابو شاہ کے لیے (میرا خطبہ) لکھ دو۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو ؓکو لکھنے کی اجازت دی تھی اور اجازت والا یہ واقعہ منع والی حدیث کے بعد پیش آیا تھا، کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمروؓنے احادیث کی کتابت کو جاری رکھا، یہاں تک کہ جب وہ فوت ہوئے تو ان کے پاس احادیث ِ نبویہ پر مشتمل ان کی کتاب بھی تھی، جس کو صحیفۂ صادقہ کہتے ہیں، اگر نہی والی احادیث متأخر ہوتیں تو سیدنا عبد اللہ ؓنے ان احادیث کو مٹا دینا تھا، کیونکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے قرآن مجید کے علاوہ دیگر چیزوں کو مٹا دینے کا حکم دیا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ چونکہ انھوں نے لکھی ہوئی احادیث کو نہیں مٹایا، بلکہ ان کو برقرار رکھا، اس لیے اس سے پتہ چلتا ہے کہ لکھنے کی اجازت دینے کا واقعہ بعد میں پیش آیا، یہ بات بالکل واضح ہے، والحمد للّٰہ۔