Blog
Books
Search Hadith

اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھنے اور حسن خاتمہ کا بیان

۔ (۲۹۸۰)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَمُوْتَنَّ أَحَدُ کُمْ إِلَّا وَہُوَ یُحْسِنُ بِاللّٰہِ الظَّنَّ، فَإِنَّ قَوْمًا قَدْ أَرْدَاہُمْ سُوئُ ظَنِّہِمْ بِاللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ {وَذَالِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِی ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ أَرْدَاکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔})) (مسند احمد: ۱۵۲۶۷)

(دوسری سند)رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کسی کو بھی موت آئے تو اس حال میںآئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہو، ایک قوم کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان کے سوئے ظن نے ہلاک کر دیا تھا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: تمہاری اس بد گمانی نے جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی تمہیں ہلاک کر دیا اور بالآخر تم گھاٹا پانے والوں میں ہو گئے۔ (سورہ حم سجدۃ: ۲۳)
Haidth Number: 2980
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۲۹۸۰)تخریـج: …حدیث صحیح دون قولہ: ((فان قوما قد أرداھم…۔)) وھذا اسناد ضعیف لضعف النضر بن اسماعیل، وابنُ ابی لیلی سییء الحفظ وانظر الحدیث بالطریق الأول (انظر: ۱۵۱۹۷)

Wazahat

فوائد: …اِن احادیث میں دراصل ناامیدی اور مایوسی سے ڈرایا گیا ہے اور اس امر پر رغبت دلائی گئی ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ حسن ظن اور امید ہونی چاہیے کہ وہ رحم کرے گا اور بخش دے گا۔ لیکن یہ تنبیہ کرنا ضروری ہے کہ اس حسنِ ظن کے لیے بندے کے پاس اعمالِ صالحہ بھی ہونے چاہئیں، ان احادیث کا یہ معنی و مفہوم نہیں ہے کہ مسلمان نیک عمل ترک کر کے حسن ظن قائم کر لے، کیونکہ ان فرموداتِ نبویہ کے بلاواسطہ اور پہلے سامعین صحابۂ کرام تھے، ہمیں اس چیز پر غور کرنا ہو گا کہ اُن پاکیزہ ہستیوں نے کون سا رویہ اختیار کیا تھا۔