Blog
Books
Search Hadith

اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھنے اور حسن خاتمہ کا بیان

۔ (۲۹۸۲) عَنْ حَیَّانَ أَبِی النَّضْرِ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ وَاثِلَۃَ بْنِ الأَسْقَعِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌عَلٰی أَبِی الأَسْوَدِ الْجُرَشِیِّ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیْہِ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ وَجَلَسَ، قَالَ: فَأَخَذَ أَبُوْ الأَسْوَدِ یَمِیْنَ وَاثِلَۃَ فَمَسَحَ بِہَا عَلٰی عَیْنَیْہِ وَوَجْہِہِ لِبَیْعَتِہِ بِہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہُ وَاثلِۃَ: وَاحِدَۃٌ أَسْأَلُکَ عَنْہَا، قَالَ: وَمَا ہِیَ؟ قَالَ: کَیْفَ ظَنَّکُ بِرَبِّکَ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُوْالأَسْوَدِ وَأَشَارَ بِرَأْسِہٖ حَسَنٌ، قَالَ وَاثِلَۃُ: أَبْشِرْ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: ((قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی فَلْیَظُنَّ بِیْ مَا شَائَ۔)) (مسند احمد: ۱۶۱۱۲)

ابو نضر حیان کہتے ہیں:میں سیّدنا واثلہ بن اسقع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ ابو اسود جرشی کی عیادت کے لیے گیا، وہ مرض الموت میں مبتلا تھے، جناب واثلہ نے جا کر ان کو سلام کہا اور وہاں بیٹھ گئے۔ ابو الاسود نے واثلہ کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں اور چہرے پر پھیرا، کیونکہ انھوں نے اپنے اس ہاتھ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی تھی۔ سیّدنا واثلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا: وہ کیا؟ انھوں نے پوچھا: آپ اللہ کے بارے کیا گمان رکھتے ہیں؟ ابوالاسود نے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اچھا گمان رکھتا ہوں۔ جناب واثلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: خوش ہوجائو، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ نے فرمایا : میرے بندے کا میرے بارے میں جو گمان ہوتا ہے، میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں، پس وہ میرے بارے میں جو چاہے (اچھا یا برا) گمان رکھ لے۔
Haidth Number: 2982
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۲۹۸۲) تخریـج: …اسنادہ صحیح۔ أخرجہ الطبرانی فی ’’الکبیر‘‘: ۲۲/ ۲۱۱، والبیھقی فی ’’الشعب‘‘: ۱۰۰۵، وأخرج بنحوہ ابن حبان: ۶۴۱(انظر: ۱۶۰۱۶)

Wazahat

فوائد: …اس ضمن میں بندے کو ان اعمالِ صالحہ کے اجرو ثواب کا علم ہونا چاہیے تو وہ سرانجام دے رہا ہوتا ہے تاکہ وہ اس اجرو ثواب کی امید پر اللہ تعالیٰ کے بارے میں اپنے ظن میں حسن پیدا کر سکے۔