Blog
Books
Search Hadith

حدیث لکھنے کی رخصت کا بیان

۔ (۲۹۹)۔عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ: قَالَ لِیْ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: أُکْتُبْ عَنِّیْ وَلَوْ حَدِیْثًا وَاحِدًا مِنْ غَیْرِ کِتَابٍ فَقُلْتُ: لَا وَلَا حَرْفًا۔ (مسند أحمد: ۱۴۲۱۷)

یحییٰ بن معین کہتے ہے: امام عبد الرزاق نے مجھ سے کہا: مجھ سے لکھو، اگرچہ ایک حدیث ہی ہو، لیکن میرے پاس کتاب نہیں ہے۔ میں (یحییٰ) نے کہا: جی نہیں، ایک حرف بھی نہیں لکھوں گا۔
Haidth Number: 299
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۲۹۹) تخریج: اثر صحیح (انظر: ۱۴۱۷۰)

Wazahat

فوائد: …امام یحییٰ بن معین نے امام عبد الرزاق جیسے جلیل القدر اور وسیع العلم محدث کے حفظ سے احادیث کو لکھنا گوارا نہیں کیا، یہ صرف اس شبہ کی بنا پر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی حدیث کے معاملے میں خلط ملط اور بھوک چوک میں نہ پڑ گئے ہوں، ان امور کی بنیاد احتیاط تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس دور میں احادیث ِ مبارکہ لکھنے کا سلسلہ عام تھا۔ اس باب کی اور دیگر کئی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ احادیث ِ نبویہ کو لکھنے کا حکم دیا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے خود بھی کئی احادیث لکھوائیں، نیز بعض صحابہ کرام نے احادیث ِ طیبہ کے صحیفے تیار کیے، مثال کے طور پر: صحیفۂ سعد بن عبادہ، صحیفۂ جابر بن عبد اللہ، صحیفۂ سیدہ عائشہ، صحیفۂ اسماعء بنت عمیس، صحیفۂ عبد اللہ عمر ، صحائف عبداللہ بن عباس، صحیفۂ زید بن ارقم، صحیفۂ زید بن ثابت، صحیفۂ سلمان فارسی، صحیفۂ سمرہ بن جندب، صحیفۂ سہل بن سعد ساعدی ۔ لیکن پچھلے باب کی احادیث میں کتابت ِ حدیث سے منع کیا گیا ہے، اِن میں جمع و تطبیق کی صورتیں درج ذیل ہیں: (۱) احادیث کو قرآن مجید کے ساتھ لکھنے سے منع کیا گیا تھا، تاکہ قرآن اور غیر قرآن کااختلاط واقع نہ ہو جائے، دونوں کو علیحدہ علیحدہ لکھنے کی اجازت تھی۔ (۲) شروع میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے احادیث کو لکھنے سے منع کردیا تھا، لیکن بعد میں جب التباس کا خطرہ ٹل گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے احادیث کو لکھنے کی عام اجازت دے دی تھی، اس صورت کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی آخری حیات ِ مبارکہ میں احادیث لکھنے کی مثالیں موجود ہیں، مثلا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فتح مکہ کے موقع پر ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جب ابو شاہ یمنی نے یہ مطالبہ کیا کہ میرے لیے یہ خطبہ لکھوا دیا جائے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنے صحابہ کے حفظ پر اعتماد کرتے ہوئے فرمایا: ((اُکْتُبُوْا لِاَبِیْ شَاہٍ)) … میرے صحابہ! یہ خطبہ ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔ بعد میں تو لکھنے کا ایسا رواج پڑا کہ گویا احادیث ِ نبویہ اور ان کے لکھنے کو لازم و ملزوم سمجھ لیا گیا۔