Blog
Books
Search Hadith

قریب الموت کو دکھائے جانے والے مناظر اور جسم سے جدا ہونے کے بعد روح کا ٹھکانہ

۔ (۳۰۲۹) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ:) حَتّٰی إِذَا خَرَجَ رُوْحُہُ صَلّٰی عَلَیْہِ کُلُّ مَلَکٍ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ وَکُلُّ مَلَکٍ فِی السَّمَائِ وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَائِ وَلَیْسَ مِنْ أَہْلِ بَابٍ إِلَّا وَہُمْ یَدْعُوْنَ اللّٰہَ أَنْ یُعْرَجَ بِرُوْحِہِ مِنْ قِبَلِہِمْ، فَإِذَا عُرِجَ بِرُوْحِہِ قَالُوْا: رَبِّ عَبْدُکَ فُلَانٌ، فَیَقُوْلُ: اِرْجِعُوْہُ، فَإِنِّی عَہِدْتُّ إِلَیِہِمْ أَنِّی مِنْہَا خَلَقْتُہُمْ وَفِیْہَا اُعِیْدُہُمْ، وَمِنْہَا أُخْرِجُہُمْ تَارَۃً أُخْرٰی، قَالَ: فَإِنَّہُ یَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِ أَصْحَابِہِ إِذَا وَلَّوْا عَنْہُ فَیَأْتِیْہِ آتٍ، فَیَقُوْلُ: مَنْ رَبُّکَ، مَا دِیْنُکَ،مَنْ نَبِیُّکَ؟ فَیَقُوْلُ: رَبِّیَ اللّٰہُ، وَدِیْنِیَ اْلإِسْلَامُ، وَنَبِیِّیْ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَیَنْتَہِرُہُ، فَیَقُوْلُ: مَنْ رَبُّکَ، مَا دِیْنُکَ، مَنْ نَبِیُّکَ؟ وَہِیَ آخِرُ فِتْنَۃٍ تُعْرَضُ عَلَی الْمُؤْمِنِ فَذَالِکِ حِیْنَ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمُنْوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ۔} فَیَقُوْلُ: رَبِّیَ اللّٰہُ وَدِیْنِیَ الإِسْلَامُ وَنَبِیِّی مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَیَقُوْلُ لَہُ: صَدَقْتَ، ثُمَّ یَأْتِیْہِ آتٍ حَسَنُ الْوَجْہِ طَیِّبُ الرِّیْحِ حَسَنُ الثِّیَابِ، فَیَقُوْلُ: أَبْشِرْ بِکَرَامَۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَنَعِیْمٍ مُقِیْمٍ، فَیَقُوْلُ: وَأَنْتَ فَبَشَّرَکَ اللّٰہُ بِخَیْرٍ، مَنْ أَنْتَ؟ فَیَقُوْلُ: اَنَا عَمَلُکَ الصَّالِحُ، کُنْتَ وَاللّٰہِ سَرِیْعًا فِی طَاعَۃِ اللّٰہِ بَطِیِْئًا عَنْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ مِنَ الْجَنَّۃِ وَبَابٌ مِنَ النَّارِ، فَیُقَالُ: ہٰذَا کَانَ مَنْزِلُکَ لَوْ عَصَیْتَ اللّٰہَ، أَبْدَلَکَ اللّٰہُ بِہِ ہٰذَا، فَإِذَا رَأیٰ مَا فِی الْجَنَّۃِ قَالَ: رَبِّ عَجِّلْ قِیَامَ السَّاعَۃِ کَیْمَا أَرْجِعَ إِلٰی أَہْلِی وَمَالِی، فَیُقَالُ لَہُ: اُسْکُنْ وَإِنَّ الْکَافِرَ أِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَۃِ نَزَلَتْ عَلَیْہِ مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ فَانْتَزَعُوْا رُوْحَہُ کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّوْدُ الْکَثِیْرُ الشَّعْبِ مِنَ الصُّوْفِ الْمُبْتَلِّ، وَتُنْزَعُ نَفْسُہُ مَعَ الْعُرُوْقِ فَیَلْعَنُہُ کُلُّ مَلَکٍ مِنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ وَکُلُّ مَلَکٍ فِی السَّمَائِ وَتُغْلَقُ أَبْوَابُ السَّمَائِ لَیْسَ مِنْ أَہْلِ بَابٍ إِلَّا وَہُمْ یَدْعُوْنَ اللّٰہُ أَنْ لَّاتَعْرُجَ رُوْحُہُ مِنْ قَبَلِھِمْ فَاِذَا عُرِجَ بِرُوْحِہٖ قَالُوْا: رَبِّ! فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ عَبْدُکَ، قَالَ: اِرْجِعُوْہُ، فَإِنِّی عَہِدْتُّ إِلَیْہِمْ أَنِّیْ مِنْہَا خَلَقْتُہُمْ وَفِیْہَا أُعْیِدُہُمْ وَمِنْہَا أُخْرِجُہُمْ تاَرَۃً أُخْرٰی، قَالَ: فَإِنَّہُ لَیْسْمَعُ خفَقْ نِعَالِ أَصْحَابِہِ إِذَا وَلَّوْا عَنْہُ، قَالَ: فَیَأْتِیْہِ آتٍ فَیَقُوْلُ: مَنْ رَبُّکَ؟ مَا دِیْنُکَ؟ مَنْ نَبِیُّکَ؟ فَیَقُوْلُ: لَا أَدْرِی، فَیَقُوْلُ: لَا دَرَیْتَ وَلَا تَلَوْتَ،وَیَأْتِیْہِ آتٍ قَبِیْحُ الْوَجْہِ قَبِیْحُ الثِّیَابِ مُنْتِنُ الرِّیْحِ، فَیَقُوْلُ أَبْشِرْ بِہَوَانٍ مِنَ اللّٰہِ وَعَذَابٍ مُقِیْمٍ، فَیَقُوْلُ: وَأَنْتَ فَبَشَّرَکَ اللّٰہُ بِالشَرِّ مَنْ أَنْتَ؟ فَیَقُوْلُ: أَنَا عَمَلُکَ الْخَبِیْثُ، کُنْتَ بَطِیْئًا عَنْ طَاعَۃِ اللّٰہِ سَرِیْعًا فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ، فَجَزَاکَ اللّٰہُ شَرًّا،ثُمَّ یُقَیَّضُ لَہُ أَعْمٰی أَصَمُّ أَبْکَمُ فِی یَدِہِ مِرْزَبَۃٌ،لَوْ ضُرِبَ بِہَا جَبَلٌ کَانَ تُرَابًا، فَیَضْرِبُہُ ضَرْبَۃً حَتّٰی یَصِیْرَ تُرَابًا، ثُمَّ یُعِیْدُہُ اللّٰہُ کَمَا کَانَ فَیَضْرِبُہُ ضَرْبَۃً أُخْرٰی فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَسْمَعُہُ کُلُّ شَیْئٍ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ۔)) قَالَ الْبَرَائُ بْنُ عَازِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ مِنَ النَّارِ وَیُمَہَّدُ مِنْ فُرُشِ النَّارِ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۱۵)

(دوسری سند)اس میں ہے:جب نیک آدمی کی روح نکلتی ہے تو زمین و آسمان کے درمیان والا اور آسمان کا ہر فرشتہ اس کے لیے رحمت کی دعاء کرتا ہے اور آسمان کے ہر دروازے والے فرشتے یہ دعا کرتے ہیں کہ اس نیک بندے کی روح ان کے دروازے کے راستے سے اوپر کو جائے۔ جب اس کی روح کو اوپر لے جایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں، اے رب! یہ تیرا فلاں بندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اسے واپس لے جائو، میرا ان سے وعدہ ہے کہ میں نے انہیں زمین سے پیدا کیا، اسی میں ان کو لوٹائوں گا اور دوسری مرتبہ ان کو اسی سے نکالوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ (میت) واپس جانیوالے لوگوں کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، اتنے میں فرشتہ اس کے پاس آ جاتا ہے اور پوچھتا ہے: تیرا رب کون ہے؟تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ نیک آدمی جواب دیتا ہے:میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں۔ یہ جواب سن کر فرشتہ اسے جھڑکتا ہے اور پھر پوچھتا ہے: تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ (حقیقت میں) یہ مومن کی آزمائش اور امتحان کا آخری موقعہ ہوتاہے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمُنْوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ۔} (سورۂ ابراہیم: ۲۷) یعنی: اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو دنیا اور آخرت میں صحیح بات پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ (دوبارہ) جواب میں کہتا ہے:میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، اس دفعہ فرشتہ کہتا ہے کہ تمہارے جواب درست ہیں۔ پھر اس کے پاس ایک حسین و جمیل، عمدہ خوشبو والا اور خوش لباس آدمی آ کر کہتا ہے: تم کو اللہ کی طرف سے اکرام اور ہمیشہ کی نعمتوں کی بشارت ہو۔ یہ کہتا ہے: تجھے بھی اللہ اچھی بشارتیں دے، تم کون ہو؟ وہ کہتا ہے: میں تیرا ہی نیک عمل ہوں، اللہ کی قسم! تو اللہ کی اطاعت کرنے میں تیز اور گناہ کرنے میں سست ہوتا تھا، اللہ تجھے اچھا بدلہ دے۔پھر اس کے لیے جنت اور جہنم دونوں طرف سے ایک ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے: اگر تم اللہ کی نافرمانی کرتے تو تمہارا (جہنم والا) یہ ٹھکانہ ہوتا۔ اب اللہ نے تیرے لیے ا س کے عوض یہ (جنت والی) جگہ تیار کی ہے۔ پھر جب وہ جنت کے مناظر اور نعمتیں دیکھتا ہے تو کہتا ہے:اے میرے رب! قیامت جلدی بپا کر تاکہ میں اپنے اہل اور مال میں لوٹ سکوں۔ لیکن اسے کہا جائے گا: تم یہاں سکون کرو۔ رہا مسئلہ کافر کا تو جب وہ دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس تند مزاج اور سخت طبیعت فرشتے آ کر اس کی روح کو یوں کھینچتے ہیں جیسے زیادہ شاخوں والی سلاخ کو گیلی اون میں سے کھینچا جاتا ہے اور اس کی روح رگوں سمیت نکال لی جاتی ہے۔زمین و آسمان کے درمیان والا اور آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور ہر دروازے کے فرشتے یہ دعا کرتے ہیں کہ اس کی روح ان کے دروازے سے نہ گزرنے پائے۔ جب اس کی روح کو اوپر لے جایا جاتا ہے تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے رب! یہ تیرا فلاں بن فلاں بندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اسے واپس لے جائو۔ میرا ان سے وعدہ ہے کہ میں نے انہیں زمین سے پیدا کیا، اسی میں ان کو لوٹائوں گا اور دوبارہ میں انہیں وہیں سے نکا لوں گا، وہ واپس جانے والے لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے، اتنے میں فرشتہ اس کے پاس آ جاتا ہے۔ وہ پوچھتا ہے: تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ وہ جواباً کہتا ہے: میں نہیں جانتا۔ فرشتہ کہتا ہے: تونے نہ سمجھا اور نہ اللہ کی کتاب کو پڑھا۔ اس کے بعد اس کے پاس ایک انتہائی بدصورت اور گندے لباس ولا بدبودار آدمی آتا ہے اور کہتا ہے: تجھے اللہ کی طرف سے ذلت و رسوائی اور دائمی عذاب کی بشارت ہو۔ وہ کہتا ہے:تجھے بھی برائی کی بشارت ہو، تو کون ہے؟ وہ کہتا ہے: میں تیرا برا عمل ہوں، تو اللہ کی اطاعت کرنے میں سست اور گناہ کرنے میں تیز تھا۔ اللہ تجھے برا بدلہ دے۔ پھر اس پر ایک اندھا، بہرا اور گونگا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے، اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایسا گرز ہوتا ہے کہ اگر وہ پہاڑ پر مارا جائے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جائے۔فرشتہ زور سے اسے یہ گرز مارتا ہے، وہ آدمی مٹی ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ ٹھیک کر دیتا ہے۔ وہ پھر اسے مارتا ہے، جس کی وجہ سے وہ چیختا چلاتا ہے، اور اس کی چیخ و پکار کو جن و انس کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے۔ سیّدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس کے لیے جہنم کا بستر بچھا دیا جاتا ہے۔
Haidth Number: 3029
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۰۲۹)تخریـج: …اسنادہ ضعیف بھذہ السیاقۃ لضعف یونس بن خباب ، وانظر صحیحہ بالطریق الأول (انظر: ۱۸۶۱۴)

Wazahat

فوائد: …مومن کے صحیح جواب پر اسے جھڑکنا، یہ ایک امتحان ہے، جس میں اسے پرکھا جا رہا ہے کہ وہ اپنے عقیدے پر ثابت قدم رہتا ہے یا نہیں، اگر وہ دوسری دفعہ بھی اس کا جواب درست ہوتا ہے تو اس کا شرف ثابت ہو جاتا ہے اور وہ کرامت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ حدیث کے بقیہ سارے امور واضح ہیں، لیکن ان کا تعلق عالَمِ غیب سے ہے، جن پر ہم صرف ایمان لا سکتے ہیں، ان کی کیفیت کو نہ معلوم کر سکتے ہیں اور نہ اس کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ اس آیت {وَمَنْ یُشْرِکَ بِاللّٰہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَائِ، فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرَّیْحُ فِی مَکَانٍ سَحِیْقٍ۔} (سورۂ حج:۳۱) یعنی: ’’اور جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے، وہ گویا آسمان سے گر پڑا اور اسے پرندوں نے اچک لیا یا ہوا اسے اڑا کر دور دراز لے گئی۔‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مشرک گمراہی میں ہے اور ہدایت سے دور ہے۔ جب کافر کی روح کو آسمان سے عذاب اور بدبختی کی طرف پھینک دیا جاتا ہے تو گویا وہ اس آیت کا مصداق بن رہا ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ موت کے وقت کی سختیاں اور چیز ہے اور روح کا نکلنا اور چیز ہے، مومن موت کے شدائد میں تو مبتلا ہوتا ہے، جیسا کہ نبی کریمa کی وفات کا واقعہ بھی ہمارے سامنے ہے، لیکن روح کو آسانی کے ساتھ نکالا جاتا ہے، جبکہ فاسق و فاجر کی روح کے نکلنے کی جو مثال دی گئی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی مشکل سے اس کی روح اس کے جسم سے جدا ہوتی ہے۔