Blog
Books
Search Hadith

میت کی تجہیز و تکفین اور قرضہ ادا کرنے میں جلدی کرنا

۔ (۳۰۴۱) عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ عَنْ سَعْدِ بْنِ الْأَطْوَلِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ أَخَاہُ مَاتَ وَتَرَکَ ثَلٰثَمِائَۃِ دِرْہَمٍ، وَتَرَکَ عِیَالًا فَأَرَدْتُّ أَنْ أُنْفِقَہَا عَلٰی عِیَالِہٖ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ أَخَاکَ مَحْبُوْسٌ بَدَیْنِہِ فَاقْضِ عَنْہُ۔)) فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَدْ أَدَّیْتُ إِلَّا دِیْنَارَیْنِ، اِدَّعَتَہْمُاَ امْرَأَۃٌ وَلَیْسَ لَہَا بَیِّنَۃٌ، قَالَ: ((فَأَعْطِہَا فَإِنَّہَا مُحِقَّۃٌ)) (مسند احمد: ۲۰۳۳۶)

سیّدنا سعد بن اطول ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:ان کے بھائی کا انتقال ہو گیا، وہ تین سو درہم چھوڑ کر فوت ہوا تھا،اس کے اہل و عیال بھی تھے۔ میں نے چاہا کہ یہ رقم ان پر صرف کر دوں۔ لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے بھائی کو قرضے کی وجہ سے روک لیا گیا ہے، اس لیے تم اس کی طرف سے قرضہ ادا کر دو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس کا تمام قرض ادا کر دیا ہے، لیکن دو دینار رہتے ہیں، ایک عورت نے ان کے بارے میں دعویٰ کر دیا ہے،لیکن اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے بھی دے دو، کیونکہ وہ حق بات کر رہی ہے۔
Haidth Number: 3041
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۰۴۱) تخریـج: …حدیث صحیح، وھذا اسناد ضعیف لجھالۃ عبد الملک أبی جعفر أخرجہ ابن ماجہ: ۲۴۳۳ (انظر: ۲۰۰۷۶)

Wazahat

فوائد: …ممکن ہے کہ آپaکو وحی کے ذریعے اس عورت کے سچا ہونے کا علم ہو گیا ہے۔ اس باب کی احادیث ِ صحیحہ سے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے میت کا قرضہ اتارنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر وہ خود کوئی مال چھوڑ کر نہ گیا ہو تو اس کے قبیلے والے یہ ذمہ داری ادا کریں، بصورتِ دیگر عام دوسرے مسلمان۔ وگرنہ اگر ممکن ہوا تو بیت المال سے اس کا قرض ادا کیا جائے گا، کیونکہ فتوحات کے سلسلے کے بعد آپaخود فوت ہونے والے مقروض مسلمانوں کا قرضہ ادا کرتے تھے۔ ایک اور بڑی اہم بات ہے اور لکھتے ہوئے ڈر بھی لگتا ہے کہ قرض لینے والے اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا لیں، وہ یہ ہے جس آدمی کا یہ پکاعزم ہو کہ اس نے اپنا قرضہ چکانا ہے اور پھر وہ عملی طور پر کوشش بھی کرتا ہے اور پہلی فرصت میں قسطیں ادا کرنے کا موقع ضائع نہیں جانے دیتا، پھر بھی وہ قرض چکائے بغیر فوت ہو جاتا ہے اور اس کے لواحقین اور بیت المال بھی ادا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی کے اسباب پیدا کر کے اس کی نیکیوں کو محفوظ کر لے گا۔ کئی احادیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے،جیسے سو افراد کے قاتل کی بخشش کے اسباب مہیا کر دیئے گئے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایسے آدمی نے اللہ تعالیٰ کے ہاںجوابدہ ہونا ہے، اس لیے اسے غور کر لینا چاہیے کہ کیا اس کے پاس کوئی معقول عذر ہے۔جلدی نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بارے میں سیّدنا ابو ہریرہ bبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہaنے فرمایا: ((أَسْرِعُوْا بِالْجَنَازَۃِ، فَاِنْ تَکُ صَالِحَۃً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُوْنَھَا اِلَیْہِ، وَاِنْ تَکُ سِوٰی ذَالِکَ فَشَرٌّ تَضَعُوْنَہٗ عَنْ رِقَابِکُمْ۔)) یعنی: ’’جنازے میں جلدی کرو، پس اگر وہ نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف بھیج رہے ہو اور اگر وہ برا ہے تو وہ تو شرّ ہے جسے تم اپنے کندھوں سے اتار رہے ہو۔‘‘ (بخاری: ۱۳۱۵، مسلم: ۵۰ یا ۹۴۴)