Blog
Books
Search Hadith

نوحہ کرنے، نوحہ کرنے والی اور اسے سننے والی کے حق میں ثابت ہونے والی سختی کا بیان

۔ (۳۰۵۹) عَنْ أَبِی مَالِکِ الأَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَرْبَعٌ مِنَ الْجَاہِلِیَّۃِ لَا یُتْرَکْنَ، اَلْفَخْرُ فِی الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِی الْأَنْسَابِ، وَالْاِسْتِسْقَائُ بِالنُّجُوْمِ، وَالنِّیاحَۃُ، وَالنَّائِحَۃُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِہَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلَیْہَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ أَوْ دِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ۔)) (مسند احمد: ۲۳۲۹۱)

سیّدنا ابو مالک اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چار امورِ جاہلیت ہیں،لیکن ان کو چھوڑا نہیں جائے گا: حسب پر فخر کرنا، نسب پر طعن کرنا، تاروں کے ذریعہ بارش طلب کرنا اورنوحہ کرنا۔ نوحہ کرنے والی عورت اگر وفات سے پہلے توبہ نہیں کر لیتی تو اسے اس حال میں قیامت کے دن کھڑا کیا جائے گا کہ اس پر تارکول یا خارش کی قمیص ہو گی۔
Haidth Number: 3059
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۰۵۹) تخریـج: …أخرجہ مسلم: ۹۳۴ (انظر: ۲۲۹۰۳)

Wazahat

فوائد: …’’حسب پر فخر کرنا‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ آباء و اجداد کے مناقب بیان کر کے اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنا اور غرور اور تکبر کرتے ہوئے یہ کہنا کہ میں فلاں عالم، فلاں بہادر، فلاں ڈاکٹر یا فلاں مالدار کا بیٹا ہوں۔ اس میں کمال کسی کا ہوتا ہے اور بڑائی کوئی کر رہا ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر کسی کا دادا بڑا انسان تھا تو اس میں پوتے کا کیا کمال ہے، اسے چاہیے کہ اپنے اندر اس قسم کی صلاحیتیں پیدا کرے اور عاجزی و انکساری سے زندگی گزارے۔ نسب پر طعن کرنا اور حسب پر فخر کرنا، دونوں نحوستیں ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں، ان کے ذریعے نااہل اور جاہل لوگ اپنے بڑے پن کو ثابت کر کے مطمئن رہنا چاہتے ہیں، ایک دن میں نے اچھے بھلے لکھے پڑے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم وہ لوگ ہیں کہ جن کے ماموں کو فلاں نواب نے اس کرسی یا مقام پر بٹھایا تھا، جہاں آصف علی زرداری کو بٹھایا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ زرداری عام مالدار آدمی تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو زرداری کی سیٹ پر بٹھا دیا جائے تو اس سے بیٹھنے والے کو کتنی عظمت ملی، یہ فیصلہ تو منصف حضرات سے کروانا پڑے گا، بھلا بھانجوں کو اس پر اترانے کا کیا حق حاصل ہے۔ ’’تاروں کے ذریعہ بارش طلب کرنا‘‘ ہم ’’ابواب الاستسقائ‘‘ کے آخر میں اس پر بحث کر آئے ہیں۔