Blog
Books
Search Hadith

نوحہ کے بغیر رونے کی رخصت کا بیان

۔ (۳۰۸۱) عَنْ ابْنِ عَبَّاسَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: جَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی بَعْضِ بَنَاتِہِ، وَہِیَ فِی السَّوْقِ، فَأَخَذَہَا وَوَضَعَہَا فِی حِجْرِہِ حَتّٰی قُبِضَتْ فَدَمَعَتْ عَیْنَاہُ فَبَکَتْ أُمُّ أَیْمَنَ، فَقِیْلَ لَہَا: أَتَبْکِیْنَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: أَلَا أَبْکِی وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَبْکِی، قَالَ: ((إِنِّی لَمْ أَبْکِ، وَہٰذِہِ رَحْمَۃٌ إِنَّ الْمُؤْمِنَ تَخْرُجُ نَفْسُہُ مِنْ بَیْنِ جَنْبَیْہِ وَہُوَ یَحْمُد اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ (وَفِی لَفْظٍ) إِنَّ الْمُؤْمِنَ بِکُلِّ خَیْرٍ عَلٰی کُلِّ حَالٍ، إِنَّ نَفْسَہُ تَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ جَنْبَیْہِ وَہُوَ یَحَمَدُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ)) (مسند احمد: ۲۴۱۲)

سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ایک صاحب زادی کے ہاں تشریف لائے، جبکہ وہ عالَمِ نزع میں تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو پکڑا اور اپنی گود میں رکھا، اس وقت اس کی روح پرواز کر گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھوں سے آنسو آ گئے، سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی رونے لگیں، ان سے کسی نے کہا: تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہوتے ہوئے رو رہی ہیں؟ انہوں نے کہا: میں کیوں نہ روؤں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی تو رو رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تونہیں رو رہا، یہ تو رحمت ہے۔ مومن کی روح اس کے پہلوئوں سے نکل رہی ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: مومن ہر حال میں ہر قسم کی بھلائی پرہوتاہے، جب اس کی روح اس کے پہلوئوں سے نکل رہی ہوتی ہے تو وہ اس حال میں بھی اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کر رہا ہوتا ہے۔
Haidth Number: 3081
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۰۸۱) تخریـج: …حدیث حسن۔ أخرجہ الترمذی فی ’’الشمائل‘‘: ۳۱۸، وابن ابی شیبۃ: ۴/ ۳۹۴، وعبد بن حمید: ۵۹۳ (انظر: ۲۴۱۲)

Wazahat

فوائد: …اس صاحب زادی سے مراد آپaکی نواسی تھیں، اگلی حدیث میں اس کی وضاحت آ رہی ہے۔ نبی کریمaاور سیدہ ام ایمنcدونوں ہی رو رہے تھے، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ام ایمن کا رونا آواز کے ساتھ تھا، اگرچہ وہ نوحہ نہیں تھا اور آپaکا رونا بلا آواز تھا، جو دل کے نرم ہونے پر دلالت کرتا ہے، آپaکا اپنے رونے کی نفی کرنا، اس سے مراد یہ تھا کہ آپaاس کی طرح تو نہیں رو رہے تھے۔ اس حدیث سے ایک اہم سبق یہ بھی ملتا ہے کہ مسلمان کو بڑی سے بڑی آزمائش پر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کر کے اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہونے کا اظہار کرنا چاہیے۔