Blog
Books
Search Hadith

رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ پر جھوٹ بولنے کے معاملے میں سختی کا بیان

۔ (۳۱۴)۔عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الَّذِیْ یَکْذِبُ عَلَیَّ یُبْنٰی لَہُ بَیْتٌ فِی النَّارِ)) (مسند أحمد: ۶۳۰۹)

سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک جو شخص مجھ پرجھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے آگ میں ایک گھر تیار کیا جاتا ہے۔
Haidth Number: 314
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۱۴) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ۔ أخرجہ البزار: ۲۱۰(انظر: ۶۳۰۹)

Wazahat

فوائد: …نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ پر جھوٹ بولنے کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی طرف ایسے قول یا فعل کو منسوب کر دیا جائے، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے کہا یا کیا نہ ہو۔ ان لوگوں کا نظریہ باطل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ تو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ترغیب دلانے اور اس کی نافرمانی سے بچانے کے لیے جھوٹی احادیث گھڑتے ہیں، جیسا کہ ابو عصمہ نوح بن ابی مریم نے عن عکرمۃ عن ابن عباس کے طریق سے قرآن مجید کی ہر سورت کی فضیلت میں احادیث گھڑنا شروع کیں، جب اس سے اِن احادیث کی حقیقت کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا: جب میں نے دیکھا کہ لوگ ابو حنیفہ کی فقہ اور ابو اسحاق کے مغازی میں مشغول ہو کر قرآن مجید سے اعراض کر رہے ہیں تو میں نے یہ سلسلہ شروع کر دیا، تاکہ وہ قرآن مجید کی طرف لوٹ آئیں۔ حافظ ابن حجر نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے فرمان مجھ پر جھوٹ نہ بولو میں ہر جھوٹے کے حق میں عام حکم ہے اور یہ جھوٹ کی ہر قسم کو شامل ہے، کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جھوٹ کو میری طرف منسوب نہ کرو، یہاں عَلَیَّ میں اس قسم کا مفہوم نہیں پایا جاتا، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس جھوٹ سے مطلق طور پر منع کر دیا ہے۔ بعض جاہل لوگوں کو دھوکہ ہوا اور انھوں نے ترغیب و ترہیب کے باب میں احادیث گھڑیں اور کہا: ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے خلاف جھوٹ نہیں بول رہے، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی شریعت کی تائید و نصرت کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔ ان بیچاروں کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی طرف جھوٹ کو منسوب کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا جا رہا ہے، کیونکہ اس جھوٹ سے شرعی حکم ثابت کیا جا رہا ہے، اس کا تعلق واجب اور مندوب سے ہو یا حرام اور مکروہ سے۔ اس مقام پر کرامیہ کے نظریے سے دھوکہ نہیں ہونا چاہیے، جنھوں نے ترغیب و ترہیب کے باب میں جھوٹی احادیث بیان کرنے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا: ہم لوگ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی خاطر جھوٹ بول رہے ہیں، نہ کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی مخالفت میں، یعنی ہمارا جھوٹ لَہٗ ہے، نہ کہ عَلَیْہ دراصل یہ دلیل پیش کرنے والے عربی زبان سے جاہل ہیں۔ اسی طرح بعض لوگوں نے مسند بزار کی سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓسے مروی اس حدیث سے جھوٹی احادیث بیان کرنے کے جواز کا استدلال کیا ہے: ((مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ لِیُضِلَّ بِہِ النَّاسَ)) … جو آدمی مجھ پر اس نظریے سے جھوٹ بولے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہے۔ جواباً گزارش ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث کے موصول اور مرسل ہونے میں اختلاف ہے، امام دارقطنی اور امام حاکم نے اس کے مرسل ہونے کو راجح قرار دیا ہے اور امام دارمی نے اس کو یعلی بن مرہ کی حدیث سے ضعیف سند کے ساتھ بیان کیا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس حدیث کو صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس میں لام علت کے لیے نہیں ہے، بلکہ صیرورت کے لیے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: {فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ} … اس آدمی سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے، جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا تاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے جھوٹ کا انجام لوگوں کا گمراہ کرنا ہے۔ اور (تیسرا جواب یہ ہے کہ) اس قسم کی قید کا تعلق عموم کے بعض افراد کی تخصیص کر دینے کے ساتھ ہے، جس کا خارج میں کوئی مفہوم نہیں ہوتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {لَاتَأْکُلُوْا الرِّبَا اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً}(سورۂ آل عمران: ۱۳۰) … بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ۔ {وَلَاتَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ} (سورۂ انعام: ۱۵۱) … اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو۔ اب گزارش یہ ہے کہ بھوک کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنا، سود کو کئی گنا بڑھا کر کھانا اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا، یہ سب قیدیں حکم کو خاص کرنے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ معاملے میں تاکید پیدا کرنے کے لیے ہیں۔ (فتح الباری: ۱/ ۲۶۶) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی طرف صرف وہ بات منسوب کی جائے، جس کی سند کے صحیح ہونے کا یقین یا ظن غالب ہو۔