Blog
Books
Search Hadith

علم کے اٹھائے جانے کا بیان

۔ (۳۲۰)۔عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْجُرَشِیِّ قَالَ: حَدَّثَنَا جُبَیْرُ بْنُ نُفَیْرٍ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ (الْأَشْجَعِیِّؓ) أَنَّہُ قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوْسٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ نَظَرَ اِلَی السَّمَائِ ثُمَّ قَالَ: ((ھٰذَا أَوَانُ الْعِلْمِ أَنْ یُرْفَعَ۔))، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ زَیَادُ بْنُ لَبِیْدٍ: أَیُرْفَعُ الْعِلْمُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَفِیْنَا کِتَابُ اللّٰہِ وَقَدْ عَلَّمْنَاہُ أَبْنَائَ نَا وَنِسَائَ نَا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((اِنْ کُنْتُ لَأَظُنُّکَ مِنْ أَفْقَہِ أَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ۔)) ثُمَّ ذَکَرَضَلَالَۃَ أَھْلِ الْکِتَابَیْنِ وَعِنْدَہُمَا مَا عِنْدَہُمَا مِنْ کِتَاب اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، فَلَقِیَ جُبَیْرُ بْنُ نُفَیْرٍ شَدَّادَ بْنَ أَوْسٍ (ؓ) بِالْمُصَلَّی فَحَدَّثَہُ ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ عَوْفٍ فَقَالَ: صَدَقَ عَوْفٌ، ثُمَّ قَالَ: وَھَلْ تَدْرِیْ مَا رَفْعُ الْعِلْمِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا أَدْرِیْ، قَالَ: ذَہَابُ أَوْعِیَتِہِ، قَالَ: وَھَلْ تَدْرِیْ أَیُّ الْعِلْمِ أَوَّلُ أَنْ یُرْفَعَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا أَدْرِیْ، قَالَ: الْخَشُوْعُ حَتَّی لَا تَکَادُ تَرٰی خَاشِعًا۔ (مسند أحمد:۲۴۴۹۰)

سیدنا عوف بن مالک اشجعی ؓ کہتے ہیں: ہم لوگ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا: یہ علم کے اٹھ جانے کا وقت ہو گا۔ زیاد بن لبید نامی ایک انصاری آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا علم اٹھا لیا جائے گا، جبکہ ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کی کتاب موجود ہے اور ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو اس کی تعلیم دے رہے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میں تو تجھے اہل مدینہ میں سب سے زیادہ سمجھدار لوگوں میں سے سمجھتا تھا۔ پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے دو کتابوں والوں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کی گمراہی اور ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب کی جو صورتحال ہے، اس کا ذکر کیا۔ جب جبیر بن نفیر کی سیدنا شداد بن اوس ؓ سے عید گاہ کے مقام پر ملاقات ہوئی تو انھوں نے ان کو سیدنا عوف ؓ کی حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: جی عوف نے سچ کہا ہے، پھر انھوں نے کہا: اور کیا تم جانتے ہو کہ علم کا اٹھ جانا کیا ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، انھوں نے کہا: اس سے مراد علم کے برتنوں کا اٹھ جانا ہے، اور کیا تو جانتا ہے کہ سب سے پہلے کون سا علم اٹھایا جائے گا؟ میں نے کہا: جی نہیں، انھوں نے کہا: نماز میں خشوع، (اور اس چیز کا اتنا فقدان ہو جائے گا کہ) ممکن ہو گا کہ تو خشوع کرنے والا کوئی شخص نہ دیکھے۔
Haidth Number: 320
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۲۰) تخریج: حدیث صحیح ۔ أخرجہ الترمذی: ۲۶۵۳ (انظر: ۲۳۹۹۰)

Wazahat

فوائد: …قرآن مجید، تفاسیر، احادیث، تشریحات اور مفتیانِ امت کے فتاوی جات، ان چیزوں کا لائبریریوں میں موجود ہونا اور بات ہے اور لوگوں کا شرعی علم اور اس کا فہم حاصل کر کے لوگوں کی اصلاح کرنا اور بات ہے۔ حضرات! شرعی علم حاصل کرنا، یہ ایک فکر ہے، یہ ایک منہج ہے، اس مقصد کے لیے تگ و دو کرنے کا مطلب اپنے آپ کو پابند کرنا ہے، بار بار نیت کو درست کرنا ہے۔ نیز اس نقطے پر غور کرنا ہے کہ شرعی علم کے حصول کا مقصد کیا ہے، اگر اپنی اور امت کی اصلاح مطلوب ہو تو مبارک، لیکن اگر بیچ میں نمود و نمائش، ریاکاری، شخصیت کو نمایاں کرنے، لوگوں کی طرف سے تعریف وصول کرنے اور دنیا حاصل کرنے کی بد بو آنے لگ گئی تو رفعتیں پستیوں میں بدل جاتی ہیں۔اس حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوا کہ عمل بھی علم ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ شریعت کا اصل مطلوب تو عمل ہی ہے، البتہ اس مقصود کے حصول کے لیے علم ضروری ہے، جس علم کے ساتھ عمل نہ ہو، وہ اہل علم کے لیے رحمت کی بجائے زحمت بن جاتا ہے، عمل سے مراد فرائض کی ادائیگی اور محرمات سے اجتناب ہے۔