Blog
Books
Search Hadith

کھیتیوں اور پھلوں کی زکوۃ کا بیان

۔ (۳۴۱۰) حدثنا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا جَرِیْرُ بَنْ مَحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ عَنْ عَلِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلِیْہِ وَعَلٰی آلِہٖوَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ: ((فِیْمَا سَقَتِ السَّمَائُ فَفِیْہِ الْعُشْرُ، وَمَا سُقِیَ بِالْغَرْبِ وَالدَّالِیَۃِ فَفِیْہِ نِصْفُ الْعُشْرِ۔)) قَالَ أبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ: ، فَحَدَّثْتُ أَبِی بحَدِیْثِ عُثْمَانَ عَنْ جَرِیْرٍ فَأَنْکَرہُ جِدًّا وَکَانَ أَبِی لاَ یُحَدَّثَنَا عَنْ مَحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ لِضَعْفِہِ عِنْدَہُ وَإِنْکَارِہِ لِحَدِیْثِہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۰)

۔ سیدناعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس (کھیتی) کو آسمان سیراب کریں، اس میں دسواں حصہ زکوۃ ہے اور جس کو ڈول اور اونٹ سے سیراب کیا جائے، اس میں بیسواں حصہ ہے۔
Haidth Number: 3410
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۴۱۰) تخر یـج:…حدیث صحیح أخرجہ البزار: ۶۹۰، ۶۹۱(انظر: ۱۲۴۰)

Wazahat

فوائد:… یہ تینوں احادیث اس اعتبار سے انتہائی قابل غور ہیں کہ آج کل عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ نہری علاقے کی فصل کا بیسواں حصہ اور بارانی علاقے کی فصل کا دسواں حصہ زکوۃ میں دیا جائے۔ لیکن ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چشموں اور نہروں اور دریاؤں سے سیراب ہونے والی فصلوں کی شرح زکوۃ بھی دسواں حصہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دسویں اور بیسویں حصے کا دارومدار فصلوں کو پانی پلانے کیلئے کی گئی محنت پر ہے اگر آبپاشی کے لیے چرخی اور رہٹ استعمال کیا جائے یابالٹی سے پانی نکالا جائے یا سواریوں پر پانی لاد کر فصلوں کو سیراب کیا جائے، تو ایسی فصل کا بیسواں حصہ زکوۃ میں ادا کیا جائے گا۔ اگر ٹیوب ویلیا ٹربائن وغیرہ کو استعمال کیا جائے یا مزدوروں کے ذریعے زمین کو سیراب کیا جائے تو اس کا بھی بیسویں حصے والا معاملہ ہو گا، کیونکہیہ محنت کا متبادل ہیں، جسے پیسہ خرچ کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی زمین کسی نہر یا چشمے کے اتنے قریب ہے کہ پانی حاصل کرنے کے لیے کوئی بڑی محنت نہیں کرنا پڑتی، بلکہ زمیندار کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پانی کو اپنی زمین میں پھیر لے، تو ایسے زمین کی پیداوار کا دسواں حصہ ادا کرنا پڑے گا، کیونکہ مذکورہ بالا احادیثمیں جن نہروں اور چشموں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے زمین کو سیراب کرنے کے لیے بھی اتنی محنت تو کرنی پڑتی ہے، یہاں اس امر کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ زمیندار لوگ نہری پانی کے عوض میں جو قیمت ادا کرتے ہیں، اس کی مقدار اتنی معمولی ہوتی ہے کہ زکوۃ کے دسویںیا بیسویں حصے کے ساتھ اس کا تعلق نہیں جوڑا جا سکتا، مثلا ۲۰۱۲؁ءمیں مجھے ایک زمیندار نے بتایا کہ وہ ایک سال میں پچاس روپے فی ایکڑ نہر کا معاملہ ادا کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی زمین، نہر سے اتنی دور ہے کہ اس سے زمین تک پانی پہنچانے کے لیے کھالوں وغیرہ کی تیاری کی صورت میں بڑی محنت درکار ہے تو اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ ادا کیا جائے گا۔مشینری، کھاد، سپرے، ملازموں یا موچیوں اور حجاموں کی اجرتوں وغیرہ جیسی سہولیات اور امور کا زکوۃ کے دسویںیا بیسویں حصے سے قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں ہے۔