Blog
Books
Search Hadith

زکوۃ ادا کرنے میں جلدی کرنے، وقت سے پہلے ادا کردینے اور امام کا زکوۃ دینے والے کے حق میں دعا کرنے کا بیان

۔ (۳۴۳۱) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عُمَرَ عَلَی الصَّدَقَۃِ فَقِیْلَ: مَنَعَ ابْنُ جََمِیْلٍ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ وَالْعَبَّاسُ عَمُّ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا نَقَمَ ابْنُ جَمِیْلٍ إلاَّ أَنَّہُ کَانَ فَقِیْرًا فَأَغْنَاہُ اللّٰہُ، وَأَمَّا خَالِدٌ فَإِنَّکُمْ تَظْلِمُوْنَ خَالِدًا فَقَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَہُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَأَمَّا الْعَبَّاسُ فَہُوَ عَلَیَّ وَمِثْلُہَا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُا أَبِیْہِ۔)) (مسند احمد: ۸۲۶۷)

۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو زکوۃ کی وصولی کے لئے بھیجا، انہوں نے واپس آ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بتلایا کہ سیدنا ابن جمیل، سیدنا خالد بن ولید اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چچا سیدناعباس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی، (یہ سن کر) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن جمیل نے تو انکار نہیں کیا مگر اس وجہ سے کہ وہ پہلے تنگ دست تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے خوشحال کر دیا ہے، البتہ تم خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر زیادتی کرتے ہو، اس نے تواپنی زرہیں اور (سارا جنگی سامان) اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا ہے، اور رہا مسئلہ عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا تو ان کے حصے کی زکوۃ، بلکہ ایک گنا مزید مجھ پر ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ انسان کا چچا اس کے والد کی مانند ہوتا ہے۔
Haidth Number: 3431
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۴۳۱) تخر یـج: أخرجہ البخاری: ۱۴۶۸، ومسلم: ۹۸۳(انظر: ۸۲۸۴)

Wazahat

فوائد:… اس حدیث ِ مبارکہ میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌نے تین افراد کے بارے میں یہ شکایت کی کہ انھوں نے زکوۃ ادا نہیں کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے بارے میں جو جوابات دیئے، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابن جمیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے نعمت کی قدر نہیں کی اور احسان کے مقابلے میں انھوں نے اچھا کردار پیش نہیں کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صرف سیدنا ابن جمیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کی مذمت کرنے پر اکتفا کیوں کیا اور عملاً ان سے زکوۃ وصول کیوں نہیں کی، حالانکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو لوگوں کے ساتھ اس وقت تک قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ جب تک ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معبودِ برحق ہونے اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دیں، نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے متعلقہ یہ بات سن کر خود باز آ گئے ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ رہا مسئلہ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کا تو ان کے بارے میں راجح قول کے مطابق دو تاویلوں کا امکان ہے: (۱) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود ذمہ داری قبول کر لی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مقصود یہ تھا کہ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ انھوں نے زکوۃ ادا نہیں کی، لیکن اب میں اس کی ضمانت دیتا ہوں، کیونکہ وہ میرے چچا ہیں اور چچا باپ کی طرح ہی ہوتا ہے۔ (۲) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی ضرورت کی وجہ سے سیدناعباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سے وقت سے پہلے دو سالوں کی زکوۃ لے لی تھی، لیکن اس تاویل پر دلالت کرنے والی جتنی احادیث ہیں، ان میں سے ہر ایک میں کوئی نہ کوئی ضعف پایا جاتا ہے، اگر تمام سندوں کے مجموعہ کو دیکھا جائے تو دوسری تاویل قوی معلوم ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے فتح الباری: ۳ /۴۲۶کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کی شکایت کے مطابق سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کا زکوۃ ادا نہ کرنا، اس کی بھی دو تاویلیں ہو سکتی ہیں: (۱) سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے اپنی زکوۃ کی قیمت سے جہاد کیلئے اسلحہ اور دوسرے آلاتِ حرب خرید لیے تھے، جہاد بھی مصارف ِ زکوۃ میں سے ہے، اور اس ضمن میں انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت لی ہو گی کہ وہ زکوۃ کے معاملے میں اپنا حساب کتاب خود کر لیا کریں گے۔ (۲) سرے سے سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے اپنا مال و متاع اللہ کے راستے میں وقف کر رکھا تھا، لیکن زکوۃ لینے والوں کو اس چیز کا علم نہیں تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔