Blog
Books
Search Hadith

زکوۃ ادا کرنے میں جلدی کرنے، وقت سے پہلے ادا کردینے اور امام کا زکوۃ دینے والے کے حق میں دعا کرنے کا بیان

۔ (۳۴۳۲) عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌لِلنَّاسِ: مَا تَرَوْنَ فِی فَضْلٍ فَضَلَ عِنْدَنَا ِمْن ہَذَا الْمَالِ، فَقَالَ النَّاسُ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! قَدْ شَغَلْنَاکَ عَنْ أَہْلِکَ وَضَیْعَتِکَ وَتِجَارَتِکَ فَہُوَ لَکَ۔ فَقَالَ لِیْ: مَا تَقُوْلُ أَنْتَ، فَقُلْتُ: قَدْ أَشَارُوْا عَلَیْکَ۔ فَقَالَ لِی: قُلْ، فَقُلْتُ: لِمَ تَجْعَلُ یَقِیْنَکَ ظَنَّا، فَقَالَ: لَتَخْرُجَنَّ مِمَّا قُلْتَ، فَقُلْتُ: اَجَلْ وَاللّٰہِ ! لَأَخْرُجَنَّ مِنْہُ أَتذَکْرُ ُحِیْنَ بَعَثَکَ نَبِیُّاللّٰہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَاعِیًا فَأَتَیْتَ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَمَنَعَکَ صَدَقَتَہُ فَکَانَ بَیْنَکُمَا شَیْئٌ، فَقُلْتَ لِیْ: اِنْطَلِقْ مَعِی إِلی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَجَدْنَا ہُ خَاثِرًا، فَرَجَعْنَا، ثُمَّ غَدَوْنَا عَلَیْہِ فَوَجَدْنَاہُ طَیِّبَ النَّفْسِ فَأَخْبَرْتَہُ بِالَّذِی صَنَعَ، فَقَالَ لَکَ: ((أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیْہِ۔)) وَذَکَرْنَا لَہُ الَّذِی رَأَیْنَاہُ مِنْ خُثُوْرِہِ فِی الْیَوْمِ الْأَوَّلِ وَالَّذِی رَأَیْنَا مِنْ طِیْبِ نَفْسِہِ فیِ الْیَوْمِ الثَّانِی، فَقَالَ إِنَّکُمَا أَتَیْتُمَانِی فِیْ الْیَوْمِ الْأَوَّل َ، وَقَدْ بَقِیَ عِنْدِی مِنَ الصَّدَقۃَ ِدِیْنَارَانِ، فَکَانَ الَّذِی رَأَیْتُمَا مِنْ خُثُوْرِی لَہُ، وَأَتَیْتُمَانِی الْیَوْمَ وَقَدْ وَجَّہْتُہُمَا غَدًا، فَذَالِکَ الَّذِی رأََیْتُمَامِنْ طِیبِ نَفْسِی، فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌صَدَقْتَ وَاللّٰہِ، لاََشْکُرَنَّ لَکَ الْأُوْلٰی وَالْآخِرَۃَ۔ (مسند احمد: ۷۲۵)

۔ سیدناعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں سے کہا: (صدقہ کا) جو مال ہمارے پاس بچ گیا ہے، اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین! ہم نے آپ کو آپ کے اہل و عیال، کاروبار اور تجارت سے مصروف کر دیا ہے، اس لیےیہ مال آپ اپنے پاس رکھ لیں۔ سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ (علی) سے پوچھا: آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: لوگ آپ کو ایک چیز کا اشارہ کر چکے ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا: آپ بھی کچھ کہو۔ میں نے کہا: آپ اپنے یقین کو گمان میں کیوں تبدیل کرتے ہیں؟انہوں نے کہا: تمہیں کھل کر بات کرنا ہو گی۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے، وضاحت سے عرض کرتا ہوں، کیا آپ کو یاد ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آپ کو زکوٰۃ کی وصولی کے لئے بھیجا تھا، جب آپ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اورآپ کے اور ان کے درمیان چپقلش بھی ہو گئی تھی۔ آپ نے مجھ سے کہا تھا: میرے ساتھ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک چلو۔ پس ہم گئے لیکن جب ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پریشان حال دیکھا تو ہم واپس لوٹ گئے،جب ہم دوسرے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے تو آپ کو ہم نے مطمئن اور خوش گوارپایا۔ آپ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدناعباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات بتلائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : چچا والد کی ہی مانند ہوتا ہے۔ پھر ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پہلے دن کی پریشانی اور دوسرے دن کی خوشگواری کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: جب تم کل میرے پاس آئے تھے تو اس وقت میرے پاس صدقہ کے دو دینار بچے ہوئے تھے، میں ان کی وجہ سے پریشان تھا، جبکہ آج صبح ہی میں ان کو تقسیم کر چکا تھا، اس لیے تمہاری آمد پر خوش گوار اور مطمئن لگ رہا ہوں۔ یہ سن کر سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے بالکل درست کہا، میں اول و آخر آپ کا شکر گزار ہوں۔
Haidth Number: 3432
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۴۳۲) تخر یـج: اسنادہ ضعیف لانقطاعہ، ابو البختری لم یدرک علیا۔ أخرجہ الترمذی: ۳۷۶۰(انظر: ۷۲۵)

Wazahat

فوائد:… سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کا نظریہیہ تھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تو اس وقت تک انشراحِ صدر نہیں ہوا تھا، جب تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دو دینار باقی تھے، اس لیے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کو بھییہی زیب دیتا تھا کہ وہ اس معاملے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتدا کریں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سے کہا: ’’میں اول و آخر آپ کا شکر گزار ہوں۔‘‘ اس قول میں ’’اول‘‘ سے مراد یہ ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے لوگوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ بقیہ مال سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ہی اپنے پاس رکھ لیں اور ’’آخر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌نے ایک دلیل بیان کرنے کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دو دیناروں والی بات یاد کرا دی۔ اس حدیث ِ مبارکہ سے مسئول لوگوں کو اپنی ذمہ داری کا اندازہ لگا لینا چاہیے، چہ جائیکہ وہ ایسی امانتوں کو ذاتی جائیداد کی طرح ہڑپ کر جائیں۔