Blog
Books
Search Hadith

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے بعد کسی چیز میں تبدیلی کر دینے والے یا کسی چیز کو ایجاد کرنے والے کی وعید کا بیان

۔ (۳۴۴)۔عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَافِعٍٍ الْمَخْزُوْمِیِّ قَالَ: کَانَتْ أُمُّ سَلَمَۃَؓ تُحَدِّثُ، أَنَّہَا سَمِعَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ عَلَی الْمِنْبَرِ وَہِیَ تَمْتَشِطُ: ((أَیُّہَا النَّاسُ!۔)) فَقَالَتْ لِمَاشِطَتِہَا: لُفِّیْ رَأْسِیْ، قَالَتْ: فَقَالَتْ: فَدَیْتُکِ، اِنَّمَا یَقُوْلُ: أَیُّہَا النَّاسُ! قُلْتُ: وَیْحَکِ، أَوَ لَسْنَا مِنَ النَّاسِ؟ فَلَفَّتْ رَأْسَہَا وَقَامَتْ فِیْ حُجْرَتِہَا فَسَمِعَتْہُ یَقُوْلُ: ((أَیُّہَا النَّاسُ! بَیْنَمَا أَنَا عَلَی الْحَوْضِ جِیْئَ بِکُمْ زُمَرًا فَتَفَرَّقَتْ بِکُمُ الطُّرُقَ، فَنَادَیْتُکُمْ، أَلَا! ہَلُمُّوْا اِلَی الطَّرِیْقِ، فَنَادٰنِیْ مُنَادٍ مِنْ بَعْدِیْ فَقَالَ: اِنَّہُمْ قَدْ بَدَّلُوْا بَعْدَکَ، فَقُلْتُ: أَ لَا! سُحْقًا، أَ لَا! سُحْقًا۔)) (مسند أحمد: ۲۷۰۸۱)

عبد اللہ بن رافع مخزومی کہتے ہیں: سیدہ ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو سنا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے منبر پر جلوہ افروز ہو کر فرمایا: اے لوگو! جب کہ میں کنگھی کر رہی تھی، میں نے کنگھی کرنے والی خاتون سے کہا: میرا سر ڈھانپ دے، اس نے کہا: میں تجھ پر قربان جاؤں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ تو فرما رہے ہیں: اے لوگو! میں نے کہا: تیرا ناس ہو، کیا ہم لوگ نہیں ہیں، پس اس نے اس کا سر ڈھانپ دیا اور وہ اپنے حجرے میں کھڑی ہو گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: لوگو! میں حوض پر ہوں گا، تم لوگوں کو گروہوں کی شکل میں لایا جائے گا، پس تمہارے راستے جدا جدا ہو جائیں، (کوئی حوض کے راستے پر چل پڑے گا اور کوئی کسی اور راستے پر) اس لیے میں آ واز دوں گا: خبردار! اس راستے کی طرف آؤ، لیکن میرے پیچھے سے ایک آواز دینے والا مجھے آواز دے گا: بیشک ان لوگوں نے آپ کے بعد دین کو بدل دیا تھا، پس میں کہوں گا: خبردار! بربادی ہو، خبردار! بربادی ہو۔
Haidth Number: 344
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۴۴) تخریج: أخرجہ مسلم: ۲۲۹۵(انظر: ۲۶۵۴۶)

Wazahat

فوائد:… پچھلے باب میں بدعت کی حقیقت کو واضح کیا جا چکا ہے، اس باب میں بدعتی لوگوں کے انجام بد کا بیان ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی فکر، قول اور فعل کا قرآن و حدیث کے احکام کے ساتھ موازنہ کریں، اگرچہ فرقہ پرستی اور تعصب کے دور میں یہ موازنہ مشکل ہو گیا ہے، بہرحال فکرمند لوگوں کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔