Blog
Books
Search Hadith

زکوۃ وصول کنندہ کو راضی کرنا

۔ (۳۴۴۲) عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ھِلَالٍ الْعَبْسِیِّ عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ، فَقَالُوْا: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! یَأْتِیْنَا نَاسٌ مِنْ مُصَدِّقِیْکَیَظْلِمُوْنَّا، قَالَ: ((أَرْضُوْا مُصَدِّقَکُمْ۔)) قَالُوْا: وَإِنْ ظَلَمَ؟ قَالَ: ((أَرْضُوْا مُصَدِّقَکُمْ۔)) قَالَ جَرِیْرٌ: فَمَا صَدَرَ عنَّی مُصَدِّقٌ مُنْذُ سَمِعْتُہَا مِنْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا وَہُوَ عَنِّی رَاضٍ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۲۰)

۔ سیدناجریر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:کچھ بدو لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا:اے اللہ کے نبی! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زکوٰۃ کے نمائندے (زکوۃ کی وصولی کے سلسلے میں) ہم پر زیادتی کرتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم انہیں راضی کیا کرو۔ ان لوگوں نے کہا: خواہ وہ ظلم ہی کریں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بس تم انہیں راضی کیا کرو۔ سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے جب سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سنی ہے، زکوٰۃ کا نمائندہ مجھ سے راضی ہی گیاہے۔
Haidth Number: 3442
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۴۴۲) تخر یـج: أخرجہ مسلم: ۹۸۹ (انظر: ۱۹۲۰۷)

Wazahat

فوائد:… ابوداود کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: ’’((أَرْضُوْا مُصَدِّقَکُمْ وَاِنْ ظُلِمْتُمْ۔‘‘ (تم صدقہ لینے والوں کو راضی کرو، اگرچہ تم پر ظلم کیا جا رہا ہو۔) اس حدیث کا کیا مفہوم ہوا کہ اگر زکوۃ کا عامل، ربّ المال پر ظلم بھی کر رہا ہو تو تب بھی وہ خاموش رہے اور زائد مقدار ادا کرے؟ جوابا! گزارش ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس ارشاد کی زیادہ سے زیادہ دو تاویلیں ممکن ہیں: (۱) دراصل عہد ِ نبوی میں عاملینِ زکوۃ پوری مقدار کے ساتھ ہی زکوۃ وصول کرتے تھے، بعض لوگوں کو یہ مقدار زیادہ معلوم ہوتی تھی اور وہ اس کو ظلم سے تعبیر کرتے تھے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ اگر ظلم بھی ہو رہا ہو، تب بھی رعایا کو چاہیے کہ وہ عاملین کی خواہش کو پوراکریں۔ (۲) حقیقت میں ظلم سے مراد ظلم ہی ہے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ نصیحت فرمائی کہ ایسے معاملات میں رعایا کو چاہیے کہ زکوۃ وصول کرنے والے سرکاری عامل کے مقدار و معیار کا لحاظ رکھے، ان کے ساتھ مناقشہ نہ کیا جائے، بلکہ ان کے ساتھ نرمی کی جائے اور معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا جائے۔ پچھلے باب میںمذکورہ احادیث سے دوسری تاویل کی تائید ہوتی ہے۔