Blog
Books
Search Hadith

حقیر قسم کی چیز کا قصد کرنے اور اس کا صدقہ کرنے کی کراہت اور عمدہ چیز کا صدقہ کرنے کی فضلیت کی بیان

۔ (۳۴۴۴) عَنْ کَثِیْرِ بْنِ مُرَّۃَ الْحَضْرَمِیِّ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِیِّ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ الْعَصَا وفِی الْمَسْجِدِ أَقْنَائٌ مُعَلَّقَۃٌ فِیْہَا قِنْوٌ فِیْہِ حَشَفٌ، فَغَمَزَ الْقِنْوَ بِالْعَصَا الَّتِی فِییَدِہِ، قَالَ: ((لَوْ شَائَ رَبُّ ہٰذِہِ الصَّدَقَۃِ تَصَدَّقَ بِأَطْیَبَ مِنْہَا، إِنَّ رَبَّ ہٰذِہِ الصَّدَقَۃِ لَیَأْکُلُ الحَشَفَۃَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا، فَقَاَل: ((أَمَا وَاللّٰہِ! یاَ أَہْلَ الْمَدِیْنَۃِ! لَتَدَعُنَّہَا أَرْبَعِیْنَ عَامًا لِلْعَوَافِی۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: اَللّٰہُ أَعْلَمُ قَالَ: یَعْنِی الطَّیْرَ وَالسِّبَاعَ، قَالَ: وَکُنَّا نَقُوْلُ: إِنَّ ہٰذَا الَّذِی تُسَمِّیْہِ الْعَجَمُ ہِیَ الْکَرَاکِیُّ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۷۶)

۔ سیدناعوف بن مالک اشجعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایک روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ میں لاٹھی بھی تھی، اُدھر مسجد میں کھجوروں کے خوشے لٹکے ہوئے تھے، ان میں سے ایک خوشے میں خشک اور ردی قسم کی کھجوریں تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لاٹھی اس خوشے پر ماری اور فرمایا: اگریہ خوشہ صدقہ کرنے والا چاہتا تو اس سے عمدہ صدقہ کر سکتا تھا، یہآدمی قیامت کے دن بھی ناکارہ کھجوریں ہی کھائے گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے اہل مدینہ! ایک زمانہ آئے گا کہ تم اس شہر کو چالیس سال تک کے لئے پرندوں اور درندوں کے لئے چھوڑ جائو گے۔ راوی کہتا ہے: میں نے کہا کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن اس نے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی (عوافی سے مراد) پرندے اور درندے تھے۔ ہم کہتے تھے: بیشکیہ وہی چیز ہوتی ہے، جس کو عجمی لوگ کَرَاکِی کہتے ہیں۔
Haidth Number: 3444
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۴۴۴) اسنادہ حسن۔ أخرجہ ابوداود: ۱۶۰۸، والنسائی: ۵/ ۴۳، ابن ماجہ: ۱۸۲۱(انظر: ۲۳۹۷۶)

Wazahat

فوائد:… اس سے زیادہ واضح اور سبق آموز حدیث درج ذیل ہے: سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کہتے ہیں: جب کھجوروں کی کٹائی کا موسم ہوتا تو انصاری لوگ کھجوروںکے گچھے لاتے اور مسجد نبوی میں دو ستونوں کے ساتھ بندھیہوئی رسی پر لٹکا دیتے، تاکہ فقیر مہاجرین کھا لیں، ایسے میں بعض انصاری اس طرح کرتے کہ خشک اور ردّی کھجوروں والے خوشے اس نیت سے لے آتے کہ بہت سارے دوسرے خوشوں میں اس طرح کے گچھے لٹکا دینا بھی جائز ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: {وَلَا تَیَمَّمُوْا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ} ردّی کھجوروں کو خرچ کرنے کا قصد نہ کرو، {وَلَسْتُمْ بِآخِذِیْہِ اِلَّا اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ} اگر خود تم لوگوں کو ایسی چیزبطورِ تحفہ دی جاتی تو تم نے قبول نہیں کرنی تھی، البتہ اپنے ساتھی سے شرماتے ہوئے لے لینی تھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تم کو اس بات پر غصہ بھی آنا تھا کہ اس نے ایسی چیز کیوں بھیجی ہے، جس کی تمہیں ضرورت ہی نہیں ہے، {وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ} اللہ تعالیٰ تمہارے صدقات سے بے پرواہ ہے۔ (ابن ماجہ: ۱۸۲۲) پوری آیتیوں ہے: {یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوْا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیْہِ اِلَّا اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ۔} (سورۂ بقرہ: ۲۶۷)…’’اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو اور ان میں سے ردّی چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا، جسے تم خود لینے والے نہیں ہو، ہاں اگر آنکھیں بند کر لوتو، اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے۔‘‘ قارئین کرام!اللہ تعالیٰ کے راستے میں اچھی اور قیمتی چیز خرچ کرنے کے لیے عجیب قسم کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوستی اور رغبت چاہیے، شاید اس چیز کو لفظوں میں بیان نہ کیا جا سکتا ہے، آپ غور کریں کہ جب ہم اپنے کسی دوست یا معرفت والے آدمی کو کوئی تحفہ دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے کس قدر سوچتے ہیں، مختلف چیزوں میں سے کیسی کیسی چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں، اس میں ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ آدمی راضی ہو جائے، درج ذیل مثال پر غور کریں۔ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ یَزِیْدَ الأنْصَارِیِّ: أنَّ رَجُلاً قَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوْصِنِی قَالَ: ((اُوْصِیْکَ أنْ تَسْتَحْیِیَ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ کَمَا تَسْتَحْیِ رَجُلاً مِنْ صَالِحِیْ قَوْمِکَ۔)) (أحمدفی’’الزھد‘‘: صـ ۴۶،البیھقی فی’’الشعب‘‘: ۲/۴۶۲/۲، صحیحۃ:۷۴۱) سیدناسعید بن زید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! مجھے نصیحت فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو اللہ تعالیٰ سے اس طرح شرم و حیا کر جس طرح تو اپنی قوم کے نیکوکار شخص سے شرماتا ہے۔‘‘ چونکہ انسان طبعی طور پر ظاہر پرست ہے اور غیبی اور معنوی امور پر ایمان لانے کی بہ نسبت موجودہ اور حسّی چیزوں کو جلدی تسلیم کرتا ہے۔ اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے امتیوں کو شرم و حیا کا پیکر بنانے کے لیے حسّی چیز کی مثال دی، جس کا ہر کوئی لحاظ کرتا ہے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مقصود اللہ تعالیٰ کا پاس و لحاظ کروانا ہے، جو انسان کے لیے معنوی چیز ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جیسے ہم اپنے بزرگوں کے سامنے کوئی ناشائستہ اور نامناسب حرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں، بشرطیکہ کہ ہم ان کو باوقار سمجھ کر ان کے ادب و احترام کے تقاضے پورے کرنے والے ہوں، یہی معاملہ اللہ تعالیٰ سے کرنا چاہئے، جو ہماری حرکات و سکنات سے بخوبی آگاہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا فرمانا کہ: ’’اگر یہ خوشہ صدقہ کرنے والا چاہتا تو اس سے عمدہ صدقہ کر سکتا تھا، یہ آدمی قیامت کے دن بھی ناکارہ کھجوریں ہی کھائے گا۔‘‘ اس میں دوسرے جملے کا مفہوم یہ ہے کہ ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘، جو آدمی ناقص عمل کرے گا، اس کا بدلہ بھی ویسے ہی ہو گا۔ ’’کُرْکِیّ‘‘ کی جمع ’’کَرَاکی‘‘ ہے، یہ معروف آبی پرندے سارس کو کہتے ہیں۔ حدیث ِ مبارکہ کے آخری حصے کا تعلق آخری زمانہ سے ہے، جس وقت مدینہ منورہ غیر آباد ہو جائے گا، اس کی مزید وضاحت ’’فَضَائِلُ الْمَدِیْنَۃ‘‘ کے ابواب میں آئے گی۔