Blog
Books
Search Hadith

مالدار کو سوال سے منع کرنے، غِنٰی کی حد اور ان لوگوں کا بیان، جن کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔

۔ (۳۵۱۴) عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ سَاَلَ النَّاسَ اَمْوَالَہُمْ تَکَثُّرًا، فَإِنَّمَا یَسْاَلُ جَمْرًا، فَلْیَسْتَقِلَّ مِنْہُ اَوْ لِیَسْتَکْثِرْ)) (مسند احمد: ۷۱۶۳)

۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مال کو زیادہ کرنے کے لئے لوگوں سے سوال کرتا ہے، وہ دراصل آگ کے انگارے جمع کر رہا ہے، یہ اب اس کی مرضی ہے وہ تھوڑے جمع کر لے یا زیادہ۔
Haidth Number: 3514
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

Not Available

Wazahat

فوائد:… مقدار کے بارے میں مزید ایک حدیثیہ ہے: مزنی قبیلے کے ایک آدمی کو اس کی ماں نے کہا: کیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس نہیں جاتا، تاکہ آپ سے کچھ مانگ لائے، جیسا کہ لوگ سوال کرتے رہتے ہیں؟ میں (ان کے کہنے پر) کچھ مانگنے کے لیے چلا گیا، میں نے دیکھا کہ آپ لوگوں سے مخاطب تھے اور فرما رہے تھے: ((مَنِ اسْتَعَفَّ أَعَفَّہُ اللّٰہُ، وَمَنِ اسْتَغْنٰی أَغْنَاہُ اللّٰہُ، وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَہُ عِدْلُ خَمْسِ أَوَاقٍ، فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافاً۔)) ’’جس نے پاکدامنی اختیار کی، اللہ تعالیٰ اسے پاکدامن کر دے گا اور جس نے (لوگوں سے) بے نیاز ہونا چاہا، اللہ اسے بے نیاز کر دے گا۔ (یاد رکھو کہ) جس کے پاس پانچ اوقیے ہوںاور وہ پھر بھی سوال کرے تو اس کا سوال اصرار سے ہو گا۔‘‘ میں نے اپنے دل میں ہی کہا: ہماری اونٹنی پانچ اوقیوں سے تو بہتر ہے اور ایک اونٹنی میرے غلام کی بھی ہے وہ بھی پانچ اوقیوں سے بہتر ہے۔ اس بنا پر میںلوٹ آیااور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی سوال نہ کیا۔ (مسند احمد: ۴/ ۱۳۸، صحیحہ:۲۳۱۴) درج بالا احادیث ِ مبارکہ میں جہاں سوال کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے، وہاں درج ذیل مختلف پانچ مقداروں کو غِنٰی کی حداور سوال کرنے سے مانع قرار دیا گیا ہے: (۱) …پچاس درہم یعنی (۱۲ ، ۱۳) تولے چاندی (۲) …چالیس درہم یعنی (۱۰) تولے چاندی (۳) …دو وقت کا کھانا (۴) …ایک وقت کا کھانا (۵) …پانچ اوقیہ،یعنی (۲۰۰) درہم، جو کہ تقریبا (۵۲) تولے چاندی بنتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ قوانین علی الاطلاق نہیں ہیں، بلکہ مقید ہیں، مثال کے طور پرجس آدمی کی زندگی کے اخراجات چالیس درہموں کے ساتھ پورے ہو سکتے ہوں، وہ کسی صورت میں سوال نہیں کر سکتا، مثلا ایک مزدور جو روزانہ آٹھ نو درہم کماتا ہے اور اس کے پاس چالیس درہم موجود بھی ہوں تو وہ لوگوں سے بھیک نہیں مانگ سکتا، اگرچہ بسا اوقات اسے کام نہ ملتا ہو، یہی معاملہ چھابڑی فروشوں اور معمولی درجے کے دوکانداروں کا ہے۔ لیکن ایک آدمی کے پاس رہنے کے لیے گھراور دودھ کے لیے بکری موجود ہے، لیکن ان دو چیزوں سے اس کے گھر کے اخراجات کا سلسلہ تو قطعی طور پر جاری نہیں رہ سکتا، حالانکہ وہ چالیس درہم سے زیادہ مال کا مالک ہے،اس لیے وہ لوگوں سے سوال کر سکتا ہے۔ ماحصل یہ ہے کہ جس کی زندگی کا سرکل چالیس درہم یا اس سے کم قیمت کے مال سے چل سکتا ہو، وہ دوسروں کے سامنے دست ِ سوال نہیں پھیلا سکتا۔ مقصودِ شریعتیہ ہے کہ جس آدمی کی آمدن اس کے اور اس کے اہل خانہ کے ضروری اخراجات پورے کر رہی ہو، وہ لوگوں سے سوال نہیں کر سکتا، بصورت ِ دیگر اس کے جواز کی رائے دی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔