Blog
Books
Search Hadith

اللہ تعالیٰ کے نام پر یا اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر سوال کرنے کا بیان

۔ (۳۵۵۲) عَنِْ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما عَنِ النَّبِیِّ قَالَ: ((مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللّٰہِ فَاَعِیْذُوْہُ وَمَنْ سَاَلَکُمْ (وَفِی رِوَایَۃٍ: وَمَنْ سَاَلَکُمْ بِوَجْہِ اللّٰہِ) فَاَعْطُوْہُ، وَمَنْ دَعَاکُمْ فَاَجِیْبُوْہُ، وَمَنْ اَتٰی عَلَیْکُمْ مَعْرُوْفًا فَکَافِئُوہُ فَإِنَّ لَمْ تَجِدُوْا مَا تُکَافِئُوْہُ، فَادْعُوْا لَہُ حَتّٰی تَعْلَمُوْا اَنْ قَدْ کَافَاْتُمُوْہُ۔)) (مسند احمد: ۵۳۶۵)

۔ سیدناعبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی تم کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دیا کرو، جو تم سے اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کرے تو اسے وہ چیز دے دیا کرو،جو تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کیا کرو اور جو تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو تم اس کو بدلہ دو، اگر بدلہ دینے کے لیے تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو تم اس کے لیے اتنی دعا کرو کہ تمہیں اندازہ ہو جائے کہ تم نے بدلہ چکا دیا ہے۔
Haidth Number: 3552
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۵۵۲) تخر یـج: اسنادہ صحیح۔ اخرجہ ابوداود: ۵۱۰۹، والنسائی: ۵/ ۸۲ (انظر: ۵۳۶۵)

Wazahat

فوائد:… ابن جریج کہتے ہیں: امام عطا نے اللہ تعالیٰ کے نام یا قرآن مجید کا واسطہ دے کر سوال کرنے کو ناپسند کیا ہے۔ (ابن ابی شیبہ (۴/۶۸) بہرحال اگر اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کوئی جائز مطالبہ کرتا ہے تو اس کا مطالبہ پورا کرنا چاہیے۔ اس مقام پر درج ذیل حدیثاور اس کے تقاضوںکا ذکر کرنا ضروری ہے۔ سیدناعبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے روایت ہے کہ ہم بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ((أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ النَّاسِ مَنْزِلَۃً؟)) قُلْنَا: بَلٰی قَالَ: ((رَجُلٌ مُمْسِکٌ بِرَأْسِ فَرَسِہٖ،أَوْقَالَ: فَرَسٍ،فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ حَتّٰییَمُوْتَ أَوْ یُقْتَلَ۔)) قَالَ: ((فَأُخْبِرُکُمْ بِالَّذِییَلِیْہِ؟)) فَقُلْنَا: نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اِمْرُؤٌ مُعْتَزِلٌ فِی شَعْبٍ، یُقِیْمُ الصَّلَاۃَ، وََیُؤْتِی الزَّکاَۃَ وَیَعْتَزِلُ النَّاسَ۔)) قَالَ: ((فَأُخْبِرُکُمْ بِشَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَۃً؟))نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((الَّذِییُسْأَلُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَلَا یُعْطِیْ بِہٖ۔)) (نسائی: ۱/۳۵۸، ترمذی: ۳/۱۴، صحیحہ:۲۵۵) ’’کیا میں تمھیں اس شخص کے بارے میں بتاؤں جو مرتبے کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے؟‘‘ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:’’وہ آدمی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے گھوڑے کا سر تھاما ہوا ہے، (یعنی لڑنے کے لیے گھوڑے سمیت تیار ہے) حتی کہ وہ مر جاتا ہے یا اسے شہید کر دیا جاتا ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اب کیا میں تمھیں اس شخص کے بارے میں بتلاؤں جو اس کے قریب مرتبے والا ہے؟‘‘ ہم نے کہا: جی ہاں، اے رسول اللہ! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’وہ آدمی ہے جو کسی گھاٹی میںسکونت پذیر ہے اور نماز قائم کرتا ہے، زکاۃ ادا کرتا ہے اور لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اب کیا میں تمھیں اس شخص کے بارے میں بھی بتلا دوں جو مرتبے کے لحاظ سے سب سے برا ہے؟‘‘ ہم نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’وہ ہے جس سے اللہ، جو عظمتوں والا ہے، کے نام پر سوال کیاجائے، لیکن وہ پھر بھی نہ دے۔‘‘ اس حدیث کے آخری حصے میں جس بدبخت کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے دو افراد میں سے ایک مراد ہے، اگر آخری جملے کو ’’اَلَّذِییُسْأَلُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَلَا یُعْطِی بِہٖ۔‘‘ (وہہےجسسےاللہ،جوعظمتوںوالاہے،کےنامپرسوالکیاجائے، لیکن وہ پھر بھی نہ دے) پڑھا جائے، تو اس سے مراد وہ شخص ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جس سے کچھ مانگا جائے، لیکن وہ پھر بھی کچھ نہ دے۔ اگر اس جملے کو ’’الَّذِییَسْأَلُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَلَا یُعْطٰی بِہٖ۔‘‘ (وہشخصہےجوعظیم اللہ کے نام پر سوال کرتا ہے، لیکن اس کو پھر کچھ نہیں دیا جاتا) پڑھا جائے، تو اس سے سوال کرنے والا خود مراد ہو گا، جو لوگوں سے کچھ مانگنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا نام استعمال کرتاہے، لیکن پھر بھی اسے کچھ نہیں دیا جاتا۔ امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں سے دنیوی چیزوں کا سوال کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دینا حرام ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دے دے، اسے کچھ نہ دینا حرام ہے۔ امام سندھی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌، سنن النسائی کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: اگر صیغۂ معلوم کے ساتھ ’’الَّذِییَسْأَلُ بِاللّٰہِ‘‘ پڑھا جائے تو دو قباحتیں جمع ہو جاتی ہے: (۱) اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کرنا اور (۲) اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر سوال کرنے والے کو کچھ نہ دینا۔ قباحت کی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مبارک نام کی حرمت کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ لیکن صیغۂ مجہول کے ساتھ ’’الَّذِییُسْأَلُ‘‘ پڑھنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس سلسلے میں اس بندے کا تو کوئی دخل اور قصور نہیں ہے کہ سائل جس سے اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کر رہا ہے۔ پس اس مقام پر اس کے اور نہ دینے کے مابین کوئی مناسبت نظر نہیں آ رہی۔ لیکن میں (البانی) کہتا ہوں: جس آدمی سے اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کیا جائے، تو اس کے مبارک نام کا لحاظ نہ کرتے ہوئے ایسے سائل کو کچھ نہ دینا بھی حرام ہے، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللّٰہِ فَاَعِیْذُوْہُ وَمَنْ سَأَلَکُمْ بِوَجْہِ اللّٰہِ فَاَعْطُوْہُ۔)) (ابوداود، مسند احمد، صحیحہ: ۲۵۳)… ’’جو آدمی تم سے اللہ تعالیٰ کے نام پر پناہ طلب کرے، اسے پناہ دے دو اور جو آدمی اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دے کر تم سے سوال کرے، اسے دے دیا کرو۔‘‘ یہی متن سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے بھی مروی ہے، دیکھیں: (صحیحہ: ۲۵۴) جبکہ امام عطا ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ خود اس چیز کو مکروہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات یا قرآن کا واسطہ دے کر کسی دنیوی چیز کا سوال کیا جائے، جیسا کہ ابھییہ قول گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کرنا حرام ہے، اس کی ایک اور دلیلیہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَا یُسْأَلُ بِوَجْہِ اللّٰہِ اِلَّا الْجَنَّۃُ۔)) ’’اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دے کر صرف جنت کا سوال کیا جائے۔‘‘ لیکن اس حدیث کی سند ضعیف ہے، جیسا کہ علامہ منذری وغیرہ نے اس کی وضاحت کی ہے، بہرحال اس کو بطورِ شاہد پیش کیا جا سکتا ہے، کیونکہ سابقہ بحث سے یہ تو عیاں ہو چکا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے نام کا واسطہ دے کر سوال کرے، اس کا مطالبہ پورا کرنا ضروری ہے، لیکنیہ بھی ممکن ہے کہ سائل کا سوال مسئول کو اس حدیث کی مخالفت میں مبتلا کر دے اور یوں وہ اس کا مطالبہ پورا نہ کر کے حرام کا ارتکاب کر بیٹھے گا اور یہ قانون مسلّمہ ہے کہ جو چیز حرام کا سبب بنتی ہے، وہ بھی حرام ہوتی ہے، مزید آپ خود غور و فکر کر لیں۔ لیکنیہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام پیش کر کے جس چیز کا سوال کیا جائے، اس کی ادائیگی اس وقت واجب ہوتی ہے، جب مسئول دینے پر قادر ہو اور اسے یا اس کے اہل و عیال کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو، بصورت ِ دیگر سائل کا مطالبہ پورا کرنا اس پر واجب نہیں ہو گا۔ واللہ اعلم۔ (صحیحہ: ۲۵۵) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ لوگوںسے سوال کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے نام کا واسطہ نہ دیا جائے، وگرنہ اللہ تعالیٰ کے نام کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ہر ممکنہ صورت میں سائل کا مطالبہ پور کیا جائے۔