Blog
Books
Search Hadith

صدقہ کرنے والے کے لیے اپنی صدقہ کی ہوئی چیز خریدنے سے ممانعت کا بیان

۔ (۳۵۵۸) عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ، (بُرَیْدَۃَالَاسْلَمِیِّ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌اَنَّ اِمْرَاَۃً اَتَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی تَصَدَّقْتُ عَلٰی اُمِّیْ بِجَارِیَۃٍ فَمَاتَتْ وَإِنَّہَا رَجَعَتْ إِلَیَّ فِی الْمِیَراثِ، قَالَ: ((قَدْ آجَرَکِ اللّٰہُ، وَرَدَّ عَلَیْکِ فِی الْمِیْرَاثِ۔)) قَالَتْ: فَإِنَّ اُمِّیْ مَاتَتْ وَلَمْ تَحُجَّ فَیُجْزِئُہَا اَنْ اَحُجَّ عَنْہَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَتْ: فَإِنَّ اُمِّیْ کَانَ عَلَیْہَا صَوْمُ شَہْرٍ فَیُجْزِئُہَا اَنْ اَصُوْمَ عَنْہَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۴۴)

۔ سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک خاتون، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنی والدہ کو ایک لونڈی بطور صدقہ دی تھی، لیکن ہوا یوں کہ میری امی جان فوت ہو گئی ہیں اور وہ لونڈی میراث میں مجھے مل گی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں اجر بھی دے دیا ہے اور اسی لونڈی کو میراث کی صورت میں تمہیں واپس کر دیا ہے۔ اسی خاتون نے کہا: میری والدہ حج کئے بغیر فوت ہو گئی ہیں،اب اگر میں ان کی طرف سے حج کروں تو یہ اُن کو کفایت کرے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ اس نے پھر کہا: میری والدہ کے ذمے ایک ماہ کے روزے بھی تھے، اگر میں ان کی طرف سے روزے رکھ لوں تو آیا ان کو کفایت کریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔
Haidth Number: 3558
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۵۵۸) تخر یـج: اخرجہ مسلم: ۱۱۴۹(انظر: ۲۲۹۵۶)

Wazahat

فوائد:… اس باب کی احادیث سے معلوم ہوا کہ جب ایک چیز بطورِ صدقہ دے دی جائے، تو اس کی واپسی کا خیال ترک کر دیا جائے، اگرچہ وہ خرید لینے کی صورت میں ہو۔ دراصل جب آدمی ایک چیز کو اللہ تعالیٰ کے لیے کسی کی ملکیت میں دے دیتا ہے، تو پھر اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دوبارہ اس چیز کامالک بنے، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے مہاجرین کو مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کرنے کی اجازت نہیں تھی، کیونکہ وہ اس گھر کو اللہ تعالیٰ کے لیے چھوڑ چکے تھے۔ اس باب سے تو یہ ثابت ہوا کہ ہبہ کی ہوئی چیز کو واپس نہیں لیا جا سکتا، اس سے منع بھی کیا گیا ہے اور ایسا کرنے والے کی گندی مثال بیان کی گئی ہے، لیکن اس موضوع سے متعلقہ درج ذیل حدیث قابل توجہ ہے: سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَثَلُ الَّذِیْیَسْتَرِدُّ مَا وَھَبَ کَمَثَلِ الْکَلْبِ یَقِیْئُ فَیَأْکُلُ قَیْئَہٗ، فَاِذَا اسْتَرَدَّ الْوَاھِبُ فَلْیُوَقَّفْ فَلْیُعَرَّفْ بِمَا اسْتَرَدَّ ثُمَّ لِیُدْ فَعْ اِلَیْہِ مَا وَھَبَ)) (ابوداود: ۳۵۴۰، نسائی: ۳۶۸۹) ’’جو آدمی ہبہ دینے کے بعد اس کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے، وہ اس کتے کی مانند ہے، جو قے کر کے اس کو چاٹنا شروع کر دیتا ہے، لیکن جب ہبہ کرنے والا ہبہ کی واپسی کا مطالبہ کر دے تو اس کوکھڑا کیا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ وہ کیوں واپس لے رہا ہے، پھر جو چیز اس نے ہبہ میں دی تھی، وہ اسے واپس کر دی جائے۔‘‘ شارح ابوداود علامہ عظیم آبادی نے اس حدیث کا دو مفہوم بیان کیے ہیں: (۱) ہبہ کرنے والے شخص سے پوچھا جائے کہ وہ واپسی کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے، پھر اس کی چیز اس کو واپس لوٹا دی جائے، کیونکہ ممکن ہے کہ اس نے متبادل لینے کے لیےیہ چیز ہبہ کی ہو،ا ب اگر اسے متبادل مل جائے تو وہ یہ چیز واپس نہیں لے گا،وگرنہ واپس لے لے گا۔ (۲) ہبہ کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے شخص کو کھڑا کر کے ہبہ کا مسئلہ سمجھایا جائے، تاکہ اس کی جہالت ختم ہو جائے، پھر اسے کہا جائے کہ تیری مثال فلاں کتے کی طرح ہے، اب اگر تو کتے کی مشابہت سے بچنا چاہتا ہے تو اپنے مطالبہ سے باز آ جا، اور اگر تو چاہتا ہے کہ ہبہ واپس لے کر قے کو چاٹنے والے کتے کی طرح ہو جائے تو واپس لے لے، اگر پھر بھی وہ اپنے مطالبے پر ڈٹا رہے تو اس کی چیز اس کو واپس کر دی جائے۔ (عون المعبود: ۲/ ۱۶۰۹) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السُّوْئِ، اَلْعَائِدُ فِیْ ھِبَتِہٖکَالْکَلْبِیَعُوْدُ فِیْ قَیْئِہٖ)) (ترمذی: ۱۲۹۸، نسائی: ۳۶۹۸) ’’ہمارے لیے بری مثال نہیں ہے، ہبہ کی ہوئی چیز کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے، جو اپنی قے کو چاٹنا شروع کر دیتا ہے۔‘‘ امام مبارکپوری نے اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے کہا: ہم مسلمانوں کی جماعت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم ایسی قابل مذمت صفات کو اپنا لیں، کہ جن کی وجہ سے ہمیں گھٹیا ترین مخلوق کی انتہائی گھٹیا حالت سے تشبیہ دے دی جائے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {لِلَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِالْآخِرَۃِ مَثَلُ السُّوْئِ وَلِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی} ’’آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کی مثال بری ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے تو اعلی مثال (بہت بلند صفت) ہے۔‘‘ ایسے معلوم ہوتا ہے ایسے فعل سے ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور اس کو حرام قرار دینے کا یہ انداز اس طرح کہنے سے زیادہ بلیغ ہے: ’’لَا تَعُوْدُوْا فِیْ الْھِبَۃِ۔‘‘ (ہبہ کی ہوئی چیز واپس نہ لو)۔ (تحفۃ الاحوذی: ۴/ ۴۳۵) مؤخر الذکر حدیث ِ مبارکہ اور اس کی تشریح سے معلوم ہوا کہ ہبہ کی ہوئی چیز واپس لینا ناجائز ہے۔ زَکَاۃُ الْفِطْرِ صدقۂ فطر کے ابواب صدقۂ فطر: اس سے مراد ماہِ رمضان کے اختتام پر نمازِ عید سے پہلے فطرانہ ادا کرنا ہے، تاکہ روزے لغو باتوں اور فحش گوئیوں سے پاک ہو جائیں اور مسکینوں کو کھانا کھلایا جا سکے۔ فطرانہ کی ادائیگی کے لیے صاحب ِ نصابِ زکوۃ کی شرط لگانا درست نہیں ہے، یہ صدقہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو متعلقہ جنس کا ایک صاع صدقہ کرنے پر قدرت رکھتا ہو، وگرنہ {لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلّٰا وُسْعَھَا}، آنے والے چار ابواب کا تعلق صدقۂ فطر سے ہے، اس لیے اس سے متعلقہ تمام مسائل کے لیے چاروں ابواب کا مطالعہ کریں۔