Blog
Books
Search Hadith

گندم کے نصف صاع کی روایت بیان کرنے والے

۔ (۳۵۷۰) عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ اَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَتْ: کُنَّا نُؤَدِّیْ زَکَاۃَ الْفِطْرِ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُدَّیْنِ مِنْ قَمْحٍ بِالْمُدِّ الَّذِی تَقْتَاتُوْنَ بِہِ۔ (مسند احمد: ۲۷۵۳۵)

۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں ایک آدمی کی طرف سے گندم کے دو مُد بطورِ صدقۂ فطر ادا کرتے تھے، یہ وہی مُد ہے، جس کے ساتھ تم غلے کا لین دین کرتے ہو۔
Haidth Number: 3570
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۵۷۰) تخر یـج: حدیث صحیح۔ اخرجہ ابن خزیمۃ: ۲۴۰۱، وابن ابی شیبۃ: ۳/ ۱۷۶، والطبرانی فی ’’الکبیر‘‘: ۲۴/ ۲۱۹(انظر: ۲۶۹۹۵)

Wazahat

فوائد:… اس باب کی احادیث ِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ گندم کا نصف صاع بطورِ صدقۂ فطر کفایت کرتا ہے، ایک حدیثیہ بھی ہے: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((… مُدَّانِ مِنْ قَمْحٍ اَوْ صَاعٍ مِمَّا سَوَاہ مِنَ الطَّعَامِ۔)) (دارقطنی: ۲۲۰، ۲۲۱ من طریقین عن ابن جریج عنہ،صحیحہ: ۱۱۷۹) …’’گندم سے دو مدّ اور اس کے علاوہ باقی کھانوں سے ایک صاع۔‘‘ سیدناابوبکر،سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا جابر بن عبد اللہ، سیدنا معاویہ، سیدنا عبد اللہ بن عباس اور سیدنا زبیر ، یہ سب اس بات کے قائل تھے کہ گندم کا نصف صاع صدقۂ فطر میںدیا جائے گا۔ ہمارے ہاں عام طور پر عید الفطر کے موقع پر مروّجہ جنس کی قیمت کی صورت میں صدقۂ فطر ادا کر دیا جاتا ہے۔ جواز کی حد تک تو اس کا قائل ہوا جا سکتا ہے، بہرحال اصل شرعی مسئلہ یہی ہے کہ سنت کے مطابق جنس ادا کی جائے، اسی میں مساکین لوگوں کا زیادہ فائدہ ہے۔ اس موقع پر ایک چیز کی وضاحت ضروری ہے، بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ جنس کی قیمت ادا کرنا زیادہ مناسب ہے، وہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ مساکین اپنی ضرورت کے مطابق عید سے متعلقہ مختلف چیزیں خرید سکیں گے۔ ان لوگوں کا یہ فہم دو وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے، ایکیہ کہ وہی صورت زیادہ مناسبت کا حق رکھتی ہے، جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں اختیار کی گئی ہو اور دوسرے یہ کہ کیا مسکینوں، بے سہاروں اور بے کسوں کی عیدوں کی خوشیاں صرف ہمارے صدقۂ فطر کے پچاس ساٹھ روپوں میں پنہاں ہیں۔ ایسے لوگ عید کے موقع پر جب اپنے بچوں کے لیے قسما قسم کے کپڑے، جوتے، کھلونے اور کھانے کی چیزیں خرید رہے ہوتے ہیں، کیا اس وقت یہ خیال ان کو بے چین نہیں کرتا کہ ہمارے معاشرے میں سینکڑوں ایسے بچے موجود ہیں، جو ایسے موقعوں پر حاجت مند آنکھوں کے ساتھ اپنے ماں باپ کا منہ تک رہے ہوتے ہیں، لیکن ان بے چاروں کی جیب ان کے بچوں کے یہ تقاضے پورے کرنے سے عاجز ہوتی ہے۔ یہ کیسی کھوٹی اور ردّی سوچ ہے کہ ایسے محتاج صرف صدقۂ فطر سے اپنی زندگی کا سارا سرکل چلائیں۔