Blog
Books
Search Hadith

صدقۂ فطر دینے کے وقت کا بیان

۔ (۳۵۷۲) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) مِثْلُہُ إِلاَّ اَنَّہُ قَالَ: قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ إِلیَ الْمُصَلّٰی، وَقَالَ مَرَّۃً: إِلَی الصَّلاۃِ۔ (مسند احمد: ۶۳۸۹) وَقَدْ تَقَدَّمَ فِی حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَ النَّاَس قَبْلَ الْفِطْرِ بِیَوْمَیْنِ، فَقَالَ: ((اَدُّوا صَاعًا مِنْ بُرٍّ اَوْ قَمْحٍ بَیْنَ اثْنَیْنِ، وَتَقَدَّمَ اَیْضًا فِی حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَضَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ۔

۔ (دوسری سند) سابق حدیث کی مانند ہی ہے، البتہ اس میں یہ صراحت ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کے عید گاہ کو جانے سے پہلے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیا، ایک روایت میں ہے: نماز عید کے لئے جانے سے پہلے پہلے۔سیدنا عبد اللہ بن ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث پہلے گزر چکی ہے، اس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے عید الفطر سے دو روز قبل لوگوں کو خطبہ دیا اورفرمایا: تم ہر دو افراد کی طرف سے گندم کا ایک صاع صدقۂ فطر ادا کرو۔ نیز سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث میں یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رمضان کا صدقۂ فطر فرض کیا۔
Haidth Number: 3572
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۵۷۲) تخر یـج: انظر الحدیث بالطریق الاول

Wazahat

فوائد:… اِن احادیث سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ صدقۂ فطر کا وقت نمازِ عید کی طرف جانے پہلے کا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کہتے ہیں: فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُھْرَۃً لِلصِّیَامِ لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْنِ، مَنْ اَدَّاھَا قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَھِیَ زَکَاۃٌ مَقْبُوْلَۃٌ، وَمَنْ اَدَّاھَا بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَھِیَ صَدَقَۃٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ۔… رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روزے دار کے روزوں کو لغو باتوں اور فحش گوئیوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو کھلانے کے لیے صدقۂـ فطر فرض کیا ہے، جو آدمی نمازِ عید سے پہلے اس کی ادائیگی کرے گا تو یہ مقبول زکاۃ ہو گی اور جو آدمی نماز کے بعد ادا کرے گا تووہ عام صدقات کی طرح صدقہ ہو گا۔ (ابوداود: ۱۶۰۹، ابن ماجہ: ۱۸۲۷) اگر حکومت کی طرف سے صدقۂ فطر وصول کرنے کے لیے عاملین کاتقرر کیا جائے، تو عید کے دن سے پہلے بھی ان کو یہ صدقہ جمع کروایا جا سکتا ہے، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کہتے ہیں: وَکَّلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحِفْظِ زَکٰوۃِ رَمَضَانَ۔ … آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رمضان کی زکوۃیعنی صدقۂ فطر کی حفاظت کے لیے میرا تقرر کیا۔ (صحیح بخاری) اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ لوگ پہلے یہ صدقہ جمع کروا دیتے تھے۔ اسی طرح جناب ِ نافع کہتے ہیں: وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما یُعْطِیْھَا الَّذِیْنَیَقْبَلُوْنَھَا، وَکَانُوْا یُعْطَوْنَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِیَوْمٍ اَوْیَوْمَیْنِ۔ … سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما حکومت کی طرف سے قبول کرنے والوں کو صدقہ دیتے تھے اور ان کو اختتام رمضان سے ایک دو دن پہلے یہ صدقہ دیا جاتا تھا۔ (صحیح بخاری) صدقۂ فطر کو نمازِ عید سے مؤخر نہیں کرنا چاہیے، بہرحال اہل علم کا اس حقیقت پر اتفاق ہے کہ تأخیر ہو جانے کی صورت میں اس کا وجوب ساقط نہیں ہو گا، بلکہ ادائیگی تک اس کی صورت قرضے والے رہے گی۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ ابتدائے رمضان سے ہی بھکاری قسم کے یا حقیقی مسکین لوگوں کو بطورِ صدقۂ فطر پانچ دس دس روپے دینا شروع کر دیتے ہیں،یہ انتہائی غیر مناسب بات ہے، جس کی بنیاد بخل اور کنجوسی ہے، لوگوں کو چاہیے کہ وہ دورانِ رمضان نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرح کثرت سے صدقہ کیا کریں اور عید والے دن نمازِ عید سے پہلے فطرانہ ادا کیا کریں۔ فطرانہ کی رقم کے لیے معاشرے کے فقراء و مساکین کو ہی ترجیح دینی چاہیے۔