Blog
Books
Search Hadith

نفلی صدقات کی ترغیب اور فضیلت کا بیان

۔ (۳۵۸۲) وَعَنْہُ اَیْضًا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ مَلَکًا بِبَابٍ مِنْ اَبْوَابِ السَّمَائِ یَقُوْلُ: مَنْ یُقْرِضُ الْیَوْمَیُجْزٰی غَدًا، وَمَلَکًا بِبَابٍ آخَرَ یَقُوْلُ: اَللّٰہُمَّ اَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَعَجِّلْ لِمُمْسِکٍ تَلَفًا۔)) (مسند احمد: ۸۰۴۰)

۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر ایک فرشتہ یوں آواز دیتا ہے: کون آج قرض دے گا، تاکہ اسے کل (قیامت والے دن) بدلہ دیا جا سکے،اور ایک دوسرے دروازے پر ایک فرشتہ یوں کہتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بہترین متبادل عطا فرما اور بخیل کے مال کو ہلاک کر دے۔
Haidth Number: 3582
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۵۸۲) تخر یـج: اخرجہ مسلم: ۱۰۱۰(انظر: ۸۰۵۴)

Wazahat

فوائد:… اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ امیری اور غریبی نسل در نسل چلنے والی چیزیں نہیں ہے، آج جو لوگ بڑے سرمایہ دار ہیں، ان کے بڑے کوئی سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے، اسی طرح آج جو لوگ فقیر اور محتاج بن گئے ہیں، ان کے ماضی قریب کا فقر اور غربت سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ دراصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوںکو نعمتوں سے نوازتا ہے اور بندے آہستہ آہستہ اپنی اوقات کو بھول کر راہِ اعتدال سے ہٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور قارون کی طرح اپنی دولت کو اپنی ذات، ہنر اور برادری کا کمال اور اعزاز سمجھنے لگتے ہیں تو آسمان والا یا تو کچھ عرصے کے لیے ان کو ڈھیل دینا شروع کر دیتا ہے یا پھر ان کو اس نعمت سے محروم کرنے کی کاروائی شروع کر دیتا ہے، قرآن مجید کے درج ذیل اقتباس پر غور فرمائیں: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلَاہُ رَبُّہٗفَاَکْرَمَہٗوَنَعَّمَہٗفَیَقُوْلُ رَبِّیْ اَکْرَمَنِ۔ وَاَمَّا اِذَا مَا ابْتَلَاہَ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗفَیَقُوْلُ رَبِّیْ اَھَانَنِ۔ کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ۔ وَلَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ۔ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا۔ وَتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا۔} ’’انسان (کا یہ حال ہے کہ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت و نعمت دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا۔ اور جب وہ اس کو اس طرح آزماتا ہے کہ اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے ربّ نے مجھے ذلیل کر دیا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے، بلکہ بات یہ ہے کہ تم ہی لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے۔ اور مسکینوں کے کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے اور (مردوں کی) میراث سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو۔ اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو۔‘‘ (سورۂ فجر: ۱۵ تا ف۲۰) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دولت کا رخ پھر جانے کے چار اسباب بیان کیے ہیں: (۱) یتیموں کی عزت نہ کرنا، (۲) مسکینوں کو کھانا کھلانے پر ترغیب نہ دلانا، (۳) رشتہ داروں کی میراث سمیٹ لینا اور (۴) مال سے بہت محبت کرنا۔ جب کسی سرمایہ دار میں یہ خباثتیں آ جاتی ہیں تو دولت کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ یا تو چند سالوں کے بعد حالات بالکل تبدیل ہو جاتے ہیں، نہیں تو اس کے کیے کا بھگتان اس کی اولاد کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے کئی افراد اس وقت میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے دس بارہ بارہ سالوں کے اندر ایسے ایسے پلٹے دیئے کہ ان بیچاروں کو بھی سمجھ نہ آئی کہ ان کے ساتھ کیا پالیسی اختیار کی جا رہی ہے، کسی کو اس کی عیاشی نے، کسی کو اس کے بخل نے، کسی کو غریبوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے نے، کسیکو دولت ہی کو ذلت و عزت کا معیار سمجھنے نے، کسی کو سودی نظام نے، کسی کو غریبوں کے سنجیدہ مسائل پر بے حسی کا ثبوت دینے نے، کسی کو مجبوروں کو دیکھ کر تیوڑی چڑھانے نے، … علی ہذا القیاس۔ یہ ایسے اسباب ہیں کہ جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دولت کا رخ تبدیل کر دیتے ہیں۔ میں یہی التماس کروں گا: سرمایہ دارو! دولت ڈھلتی چھاؤں ہے، کبھی بھی اپنی اوقات کو نہ بھولنے پاؤ، تمہارے خزانوں کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے، اسی کے نظام کو اپنے مزاجوں اور گھروں میں رواج دو، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کی طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں ’’غنی‘‘ کا لقب پاؤ گے، وگرنہ فرشتوں کی بددعاؤں کا مصداق بن جاؤ گے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے پتہ چل رہا ہے۔