Blog
Books
Search Hadith

ماہِ رمضان سے پہلے ایکیا دو دن روزے رکھنے اور شک والے دن کا روزہ رکھنے کا بیان

۔ (۳۶۹۲) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِی مُوْسٰی قَالَ: سَاَلْتُ عَائِشَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا عَنِ الْیَوْمِ الَّذِییُخْتَلَفُ فِیْہِ مِنْ رَمَضَانَ، فَقَالَتْ: لَاَنْ اَصُوْمَ یَوْمًا مِنْ شَعْبَانَ اَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ اَنْ اُفْطِرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ، فَسَاَلْتُ ابْنَ عُمَرَ وَ اَبَا ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما فَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا قَالَ: اَزْوَاجُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَعْلَمُ بِذَاکَ مِنَّا۔ (مسند احمد: ۲۵۴۵۸)

۔ عبد اللہ بن ابی موسیٰ کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ماہِ رمضان کے مشکوک دن میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا ؟انہوں نے کہا: شعبان کا ایک روزہ رکھنا مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں رمضان کا ایک روزہ ترک کر دوں۔ میں یہ سن کر وہاں سے نکل پڑا اور سیدنا عبد اللہ بن عمر اور سیدنا ابوہریرہ سے یہی سوال کیا، انھوں نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویاں ان امور کو زیادہ جانتی ہیں۔
Haidth Number: 3692
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۶۹۲) تخر یـج: ضعیف۔ اخرجہ البیھقی: ۴/ ۲۱۱(انظر: ۲۴۹۴۵)

Wazahat

فوائد:… مشکوک دن سے مراد شعبان کی (۳۰) تاریخ والا دن ہے، اس دن کو روزہ رکھنا درست نہیں ہے، اگر شعبان کی (۲۹) تاریخ کو چاند نظر نہ آئے تو اگلے دن کو ہر صورت میں شعبان کی (۳۰) تاریخ سمجھی جائے گی، لیکن سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بطورِ احتیاط اس دن کو روزہ رکھنے کی قائل تھیں اور درج بال حدیث میں وہ یہی بات کہنا چاہتی ہیں، لیکن اس باب کی پہلی اور درج ذیل دو احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان سے متصل پہلے رمضان کی مناسبت سے یا احتیاط کے طور پر روزہ رکھنا درست نہیں: سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((أَحْصُوْا ھِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ، وَلَا تَخْلِطُوْا بِرَمَضَانَ، إِلاَّ أَن یُّوَافِقَ ذٰلِکَ صِیَاماً کَانَ یَصُوْمُہُ أَحَدُکُمْ، وَصُوْمُوْا لرُؤْیَتِہٖ وَأَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتِہٖ، فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَإِنَّھَا لَیْسَتْ تُغْمٰی عَلَیْکُمُ الْعِدَّۃُ۔)) ’’رمضان کے لیے شعبان کے چاند (کی تاریخ کو) شمار کر کے رکھو اوراُس کو رمضان کے ساتھ نہ ملا دو، ہاں اگر کوئی آدمی (باقاعدہ کسی مخصوص) دن کا روزہ رکھتا ہو اور وہ اس دن سے موافقت کر جائے (تو روزہ رکھا جا سکتا ہے)۔چاند کو دیکھ کر روز رکھو اور اسے دیکھ کر افطار کرو، اگر (انتیس تاریخ کی شام کو) چاند بادلوں میںیا کہر میں چھپ جائے تو گنتی تو پوشیدہ نہیں رہ سکتی (اس کا اعتبار کر کے تیس دن پورے کر لو)۔‘‘ (ترمذی: ۱/ ۱۳۳، صحیحہ:۵۶۵) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((صُوْمُوْا لِرُؤْیَتِہٖ، وَأَفْطِرُوْا الرُّؤْیَتَہُ، فَإِنْ حَالَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُ سَحَابٌ أَوْ ظُلْمَۃٌ أَوْ ھَبْوَۃٌ، فَأَکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ، لَاتَسْتَقْبِلُوْا الشَّھْرَ اسْتِقْبَالاً وَلَا تَصِلُوْا رَمَضَانَ بِیَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ۔)) ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی افطار کرو۔اگر تمہارے اور چاند کے درمیان بادل ، اندھیرایا گردوغبار حائل ہوجائے تو پھر (شعبان کی تیس کی) گنتی پوری کر لو۔ مہینے کا استقبال نہ کرو اور نہ ہی رمضان کو شعبان کے دن کے ساتھ ملائو۔‘‘ (نسائی: ۱/۳۰۶، صحیحہ:۱۹۱۷) اس باب سے متعلقہ مزید احادیث اور جمع تطبیق کی صورتیں درج ذیل ہیں: عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ (وَلَمْ یَقُلِ النُّسَائِی: عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرَاکَ تَصُوْمُ فِی شَھْرِ لَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ فِی شَھْرٍ مِثْلَ مَاتَصُوْمُ فِیْہِ؟ قَالَ: ((أَیُّ شَھْرٍ؟)) قُلْتُ: شَعْبَانَ۔قَالَ: ((شَعْبَانُ بَیْنَ َرَجَبَ وَرَمَضَانَ، یَغْفِلُ النَّاسُ عَنْہُ، تُرْفَعُ فِیْہِ أَعْمَالُ الْعِبَادِ، فَأُحِبُّ أَنْ لاَّیُرْفَعَ عَمَلِی إِلاَّ وَأَنَا صَائِمٌ۔)) سیدنا ابوہریرہ، سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے روایت کرتے ہیں،امام نسائی نے ابوہریرہ کا نام ذکر نہیں کیا ، سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کہتے ہیں:میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ ایک مہینے میں بہت روزے رکھتے ہیں، جبکہ دوسرے کسی ماہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے، (کیا وجہ ہے)؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’کون سا مہینہ؟‘‘ میں نے کہا: شعبان۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’شعبان، جو رجب اور رمضان کا درمیانی مہینہ ہے، سے لوگ غافل ہوتے ہیں۔ اس مہینے میں لوگوں کے اعمال (آسمانوں کی طرف) اٹھائے جاتے ہیں، میں چاہتا ہے کہ میرا عمل اس حال میں اٹھایا جائے کہ میں روزے دار ہوں۔‘‘ (صحیحہ:۱۸۹۸، نسائی:۱/۳۲۲) سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (رمضان کے علاوہ) سال کے کسی دوسرے مکمل مہینے کے روزے نہیں رکھتے تھے، مگر شعبان کے، اس ماہ کو تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رمضان کے ساتھ ملا دیتے تھے۔ (ابوداود:۲۳۳۶، ترمذی: ۷۳۶، نسائی: ۲۱۷۵، ابن ماجہ: ۱۶۴۸) دوسری روایات سے واضح ہوتا ہے کہ مکمل شعبان سے مراد اس مہینے کے اکثر دنوں کے روزے رکھنے ہیں۔ لیکن سیدنا ابو ہریرۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ بیان کرتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلَا تَصُوْمُوا۔)) ’’جب نصف شعبان ہو جائے تو روزے نہ رکھا کرو۔‘‘ اس حدیث کا ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی مذکورہ حدیث کے ساتھ تعارض ہے، اس کی تطبیقیہ دی گئی ہے کہ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کی اس حدیث کا تعلق اس شخص سے ہے جس کی پندرہ شعبان سے پہلے سے روزہ رکھنے کی عادت نہ ہو، ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ شعبان کے دوسرے نصف میں بھی روزے نہ رکھے۔