Blog
Books
Search Hadith

روزہ رکھنے اور ترک کرنے کے بارے میں چاند کی رؤیت کے سلسلے میں کیسے افراد کی گواہی پر اکتفا کیا جائے؟

۔ (۳۶۹۷) عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِی لَیْلٰی قَالَ: کُنْتُ مَعَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌فَاَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنِّی رَاَیْتُ الْہِلَالَ ہِلَالَ شَوَّالٍ۔ فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَااَیُّہَا النَّاسُ اَفْطِرُوْا۔ (مسند احمد: ۱۹۳)

۔ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے کل شوال کا چاند دیکھ لیا تھا، تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لوگو! روزہ توڑ دو۔
Haidth Number: 3697
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۶۹۷) تخر یـج: اسنادہ ضعیف، لضعف عبد الاعلی بن عامر الثعلبی، ثم ھو منقطع، عبد الرحمن بن ابی لیلی لم یسمع من عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قولہ فی ھذا الحدیث ’’کنت مع عمر…‘‘ وہم من عبد الاعلی۔ اخرجہ البیھقی: ۴/ ۲۴۹، والدارقطنی: ۲/ ۱۶۸، والبزار: ۲۴۰(انظر: ۱۹۳)

Wazahat

فوائد:… اس باب کی صحیح اور مرفوع احادیث سے معلوم ہوا کہ رؤیت ِ ہلال کے لیے کم از کم دو عادل مسلمانوں کی شہادت ضروری ہے، لیکن درج ذیل حدیث سے ایک مسلمان کی شہادت کی قبولیت کا ثبوت مل رہا ہے: سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں: تَرَائَ ی النَّاسُ الْھِلَالَ فَأَخْبَرْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِنِّیْ رَأَیْتُہٗ، فَصَامَ وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِیَامِہٖ۔ لوگوں نے (رمضان کا) چانددیکھنے کی کوشش کی، میں نے اللہ کے رسول کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (ابوداود: ۲۳۴۲) اب رؤیت ِ ہلال کے لیے ایک شخص پر اعتبار کیا جائے یا دو کی گواہی ضروری ہے، اس بارے میں کل تین آراء سامنے آ گئیں: (۱) ایک مسلمان کی شہادت بھی جائز اور درست ہے، کیونکہ جن احادیث میں دو افراد کی گواہی کا حکم دیا ہے گیا، ان کا مفہوم یہ ہے کہ ایک کی شہادت قبول نہ کی جائے، جبکہ مذکورہ بالا سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی روایت کا منطوق یہ ہے کہ ایک کی گواہی بھی قبول کی جا سکتی ہے اور اصول فقہ کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ جب مفہوم اور منطوق میں تضاد آ جائے تو منطوق کو ترجیح دی جائے گی۔ (۲)دو افراد کی شہادت ضروری ہے، جیسا کہ اس باب کی احادیث کا تقاضہ ہے، جن احادیث میں ایک فرد کی گواہی کا ذکر ہے، اِن کے نزدیک ان کی تاویل کی جاتی ہے کہ ممکن ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دوسرے لوگوں نے بھی چاند کے نظر آنے کی اطلاع دی ہو۔ (۳)ابتدائے رمضان کے لیے ایک فرد کی شہادت کافی ہے، لیکن انتہائے رمضان کے لیے دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے، تاکہ جھوٹ کی تہمت کا شبہ دور ہو جائے، کیونکہ طبعی طور پر لوگوں کا میلانیہ ہوتا ہے کہ رمضان (۲۹) تاریخ کی شام کو ہی ختم ہو جائے۔ ہمارے نزدیک پہلا قول راجح ہے، دوسرے مسلک والوں نے ایک فرد کی شہادت والی احادیث کی جو تاویل کی ہے، یہ خواہ مخواہ کا احتمال ہے، اِن احادیث کے ظاہری الفاظ اس کی اجازت نہیں دیتے، اسی طرح رمضان کی ابتداء و انتہاء میں فرق کرنا بلا دلیلہے، جیسے ایک فرد کی شہادت کی بنا پر رمضان کو شروع کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔ عادل: اس شخص کو عادل کہتے ہیں، جو مسلمان ہو، عاقل ہو، بالغ ہو اور فسق و فجور سے محفوظ ہو۔