Blog
Books
Search Hadith

اس بات کا بیان کہ جب ایک علاقے میں چاند نظر آ جائے اور دوسرے میں نہ آئے تو کیا دوسرے علاقے والوں کے لیے روزہ رکھنا لازم ہو گا یا نہیں؟

۔ (۳۶۹۸) عَنْ کُرَیْبٍ اَنَّ اُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْہُ إِلٰی مُعَاوِیَۃَ بِالشَّامِ قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَیْتُ حَاجَتَہَا وَاسْتُہِلَّ عَلَیَّ رَمَضَانُ وَاَنَا بِالشَّامِ فَرَاَیْنَا الْہِلَالَ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ فِی آخِرِ الشَّہْرِ، فَسَاَلَنِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ثُمَّ ذَکَرَ الْہِلاَلَ فَقَالَ: مَتٰی رَاَیْتُمُوْہُ؟ فَقُلْتُ: رَاَیْنَا لَیْلَۃَ الْجُمْعَۃِ، فَقَالَ: اَنْتَ رَاَیْتَہُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآہُ النَّاسُ وَصَامُوْا وَصَامَ مُعَاوِیَۃُ، فَقَالَ: لٰکِنَّا رَاَیْنَاہُ لَیْلَۃَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُوْمُ حَتّٰی نُکْمِلَ ثَلَاثِیْنَ اَوْ نَرَاہُ فَقُلْتُ: اَوَلَاتَکْتَفِیْ بِرُؤْیَۃِ مُعَاوِیَۃِ وَصِیَامِہِ؟ فَقَالَ: لَا، ہٰکَذَا اَمَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۹)

۔ کریب کہتے ہیں: سیدہ ام فضل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے مجھے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف شام میں بھیجا، میں وہیں تھا کہ ماہِ رمضان کا چاند نظرآ گیا، ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا تھا، میں اسی مہینے کے آخر میں مدینہ منورہ واپس آ گیا، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کچھ امور کے بارے میں پوچھا اور پھر چاند کا ذکر ہونے لگا، انھوں نے مجھ سے کہا: تم نے کب چاند دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، انھوں نے کہا: تو نے خود بھی دیکھا تھا، میں نے کہا: جی ہاں اور لوگوں نے بھی دیکھا تھا، پھر سب لوگوں نے اور سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے روزہ رکھا تھا۔ یہ سن کر انھوں نے کہا: لیکن ہم نے ہفتہ کی شام کو دیکھا تھا، اس لیےہم تو روزہ رکھتے رہیں گے، یہاں تک تیس دن پورے ہو جائیںیا چاند نظر آ جائے، میں نے کہا: کیا آپ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رؤیت اور روزے کو معتبر نہیںسمجھیں گے؟ انھوں نے کہا: یہ بات نہیں ہے، اصل میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے۔
Haidth Number: 3698
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۶۹۸) تخر یـج: اخرجہ مسلم: ۱۰۸۷(انظر: ۲۷۸۹)

Wazahat

فوائد:… یہ بات تو سمجھ آ گئی کہ شام میں جمعہ کی شام کو اور مدینہ میں ہفتہ کی شام کو چاند دیکھا گیا تھا، جبکہ اس وقت اور عرصۂ دراز سے شام اور سعودی عرب چاند کی تاریخ کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے قول ’’یہ بات نہیں ہے، اصل میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اگرچہ اس کے بارے میں مختلف باتیں کی گئی ہیں، لیکن زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ ان کی مراد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ حدیث تھی: ((لَاتَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوُا الْھِلَالَ وَلَا تُفْطِرُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ۔)) ’’تم اس وقت تک روزہ نہ رکھو، جب تک چاند نہ دیکھ لو، اس طرح اس وقت تک روزہ نہ چھوڑو، جب تک چاند نظر نہ آ جائے۔‘‘ اس حدیث سے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌نے یہ استدلال کیا کہ ہم خود چاند دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ رؤیت ِ ہلال کا فیصلہ کیسے کیا جائے؟ ہماری مراد یہ ہے کہ اگر ایک ملک کے مسلمانوں کو چاند نظرآ جاتا ہے تو ان ممالک کے باشندے کیا کریں گے، جن میں کوشش کے باوجود چاند نہیں دیکھا جا سکا؟ سب سے پہلے دو تنبیہات پیش کرنا ضروری ہیں: (أ) جن احادیث میں رمضان کی ابتداء و انتہاء کے لیے چاند کو معیار قرار دینے کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث نمبر( ۳۶۷۶)والے باب اور اس کے بعد والے دو ابواب کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے، گزارش ہے کہ یہ حکم مسلمانوں کی جماعت کو دیا گیا ہے، نہ کہ ہر ملک والوں کو علیحدہ علیحدہ، اگر ایک علاقے والے چاند دیکھ لیتے ہیں تو دوسروں پر بھی لازم ہو جائے گا کہ وہ اِن مسلمانوں کی شہادت قبول کر کے چاند کے نظر آ جانے کا اعلان کریں۔ (ب) عصر حاضر میں مختلف ممالک کی حدبندی کا رؤیت ِ ہلال کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ انڈیا کے مسلمان تب روزہ رکھیں گے، جب انڈیا میں چاند نظر آئے گا، پاکستان کو لوگ تب عید منائیں گے، جب پاکستان میں چاند نظر آئے اور ایران کے باشندے دس ذوالحجہ کو تب قربانی کریں گے، جب ایران میں چاند نظر آئے گا۔ تقریباً پندرہ سولہ برس پہلے کی بات ہے کہ انڈیا میں عید الفطر کا چاند نظر آ گیا تھا، لیکن اہل پاکستان نے چاند نہ دیکھ سکنے کی وجہ سے عید الفطر کا اعلان نہیں کیا تھا، اب ۲۰۱۲؁ءہے۔ اب ہم اصل مسئلہ کی طرف آتے ہیں کہ رؤیت ِ ہلال کے بارے میں زیادہ سے زیادہ درج ذیل دو آراء میں سے کسی ایک کا سہارا لیا جا سکتا ہے: (اول) مطلع کے فرق کو مدنظر رکھ کر زمین کے خطوں کا تعین کر لیا جائے، مثلا اگر سعودی عرب میں چاند نظر آ جاتا ہے تو دو چیزیں سامنے آئیں گی، مغرب کی سمت کے تمام ممالک میں چاند کے نظر آ جانے کا اعلان کر دیا جائے، اگرچہ وہاں نظر نہ بھی آئے، لیکن مشرق کی طرف والا معاملہ تھوڑا مختلف ہے، دیکھا جائے کہ چاند نظر آنے کے بعد کتنی دیر کے بعد غروب ہوتا ہے، مثال کے طور پر ایک گھنٹہ تک چاند مطلع پر موجود رہتا ہے، تو سعودی عرب سے مشرق کی طرف جن جن ممالک کا فرق ایک گھنٹے سے کم ہو، وہاں رؤیت ِ ہلال کا اعلان کر دیا جائے، کیونکہ ان علاقوں میں چاند موجود تھا، لیکن وہ دیکھ نہ پائے۔ اس نظریے کا یہ تقاضا بھی ہے کہ پاکستان اور سعودیہ کے مابین چاند کی تاریخ میں دو دنوں کا فرق نہیں پڑ سکتا، کیونکہ اگر پاکستان میں رمضان کی (۲۸) تاریخ ہو اور سعودی عرب میں (۲۹)، جبکہ سعودی عرب میں اسی تاریخ کو چاند نظر آجائے، تو دوسرے دن اہل پاکستان کو رؤیت ِ ہلال کا اعلان کر دینا چاہیے، کیونکہ سعودی عرب میں چاند نظر آ جانے کا مطلب یہ ہے کہ چاند افق پر موجود ہے، لیکنیہ ضروری نہیں کہ وہ دوسرے دن اہل پاکستان کو نظر آجائے۔ (دوم) جب کسی ایک علاقے کے مسلمان رؤیت ِ ہلال کی شہادت دے دیں، تو تمام اسلامی ممالک چاند کے نظر آنے کا اعلان کر دیں، جیسا کہ شیخ البانیiکہتے ہیں: اس بحث سے مسلمانوں کی ایک بڑی مشکل آسان ہو سکتی ہے، اور وہ ہے مختلف مطالع کی وجہ سے ہلال رمضان کے نظر آنے یا نہ آنے میں باہمی اختلاف۔ ظاہر بات ہے کہ اگر چاند ایک علاقے میں نظر آ جاتا ہے تو ضروری نہیں کہ ہر علاقے والے اس کو دیکھ سکیں۔مثلا: اگر چاند مغرب میں نظر آتا ہے تو ناممکن ہو گا کہ تمام مشرق والوں کو بھی نظر آ سکے۔ کچھ علمائے اسلام کا یہ خیال ہے کہ درج ذیل حدیث : ((…صُوْمُوْا لرُؤْیَتِہٖ وَأَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتِہٖ…)) (صحیحہ:۵۶۵)… ’’چاند کو دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے دیکھ کر افطار کرو۔‘‘ اپنے عموم پر باقی ہے اور مختلف مطالع کے ساتھ اس کو مقیّد کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ مطالع کا سلسلہ غیر محدود اور غیر معین ہے، شرعاً اور عقلاً یہی بات درست معلوم ہوتی ہے، لہذا اس حدیث کو مقید کرنا دینا درست نہیں ہے، جبکہ عصرِ حاضر میں تو یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ایک ملک میں چاند نظر آ جاتا ہے تو میڈیا کے ذریعے تمام اسلامی ممالک کو مطلع کیا جا سکتا ہے، اس صورت میں جس کو رؤیت ِ ہلال کی خبر ہو گی، وہ روزہ رکھے گا، اگرچہ یہ خبر یکم رمضان کو غروبِ آفتاب سے کچھ وقت پہلے موصول ہو، اس پر کوئی قضا نہیں ہو گی، کیونکہ اس نے اپنی استطاعت کے مطابق اس واجب کو ادا کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ وہ کسی کی طاقت سے بڑھ کر اس کو تکلیف نہیں دیتا۔ بہرحال ہمارا خیال ہے کہ تمام اسلامی حکومتیں روزہ رکھنے اور عید منانے کے دن کو متحد و مربوط کریں، جیسا کہ حج کا معاملہ ہے، ہم یہ نہ دیکھنے پائیں کہ کسی علاقے والے اپنے ملک کے ساتھ اور دوسرے علاقے والے دوسرے ملک کے ساتھ روزہ رکھ رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے، جو توفیق دیتا ہے۔ (صحیحہ: ۲۶۲۴) مؤخر الذکر نظریہ زیادہ درست معلوم ہوتا ہے، یہی سہولت آمیز اور اتحاد بین المسلمین کی علامت ہے، حدیث نمبر (۳۶۹۵) سے اس نظریے کی تائید ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ جب قافلے والوں نے دن کے پچھلے پہر یہ شہادت دی کہ انھوں نے تو کل شام کو چاند دیکھ لیا تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو روزہ توڑ دینے کا اور اگلے دن نمازِ عید کے لیے جانے کا حکم دیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس قافلے سے نہ یہ تفصیل پوچھی کہ انھوں نے کس مقام پرچاند دیکھا تھا اور نہ مطلع کے اختلاف کے مسئلہ کی وضاحت کی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ حج تو ایک جگہ ہوتا ہے اور تمام مسلمان مکہ میں جا کر حج کرتے ہیں۔ یہ واضح اور ایک وقت میں حج میں کوئی رکاوٹ اور الجھن نہیں۔ لیکن پوری دنیا میں تمام مسلمانوں کا ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن ہی چھوڑنا کیسے ممکن ہے۔ جبکہ مختلف ممالک میں چاند طلوع ہونے کے اوقات مختلف ہیں اور ایکیا دو دن کا فرق بھی عام ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس معاملہ میں اتحاد ممکن نہیں لہٰذا حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے ہر ہر علاقے کی اپنی اپنی رؤیت کا اعتبار ہونا چاہیے۔ (عبداللہ رفیق) قافلے والوں نے رات چاند دیکھا اور اگلے دن مدینہ پہنچ کر چاند طلوع ہونے کی خبر دی۔ ظاہر ہے کہ قافلوں کا سفر عام طور پر اونٹوں وغیرہ پر ہوتا تھا۔ ہوائی جہازوں کی رفتار کی طرح تو نہیں ہوتا تھا۔ وہ رات سے اگلے دن تک کتنا سفر طے کر کے آئے ہوں گے۔ یہ واضح تھا اور اس سے اختلاف مطالع کی صورت نہیں بنتی تھی۔ اس لیے آپ نے وضاحت کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اب اس صورت حال سے پوری دنیا کے اندر ایک وقت میں چاند کے طلوع ہونے کا اعتبار کر لینا عقلی طور پر بہت زیادہ بعید ہے۔ اور واقعاتی طور پر ایسا ہونا ناممکن ہے۔ بشریت نے تمام مسلمانوں کو ایک ہی دن روزہ رکھنے اور ایک ہی دن چھوڑنے کا مکلف بنایا بھی نہیں۔ شرعی لحاظ سے ایک چیز کی پابندی نہیں اور واقعاتی لحاظ سے پوری دنیا میں ایک وقت میں چاند کا طلوع ہونا ممکن بھی نہیں تو پھر اس معاملہ میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ (عبداللہ رفیق)