Blog
Books
Search Hadith

رات کو روزے کی نیت کر لینے کے وجوب اور اور اس شخص کے حکم کا بیان کہ جس پر رمضان کے مہینےیا اس کے کسی دن کے دوران روزے فرض ہو جاتے ہیں

۔ (۳۷۰۸) عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَبِی الْمِنْہَالِ بْنِ مَسْلَمَۃَ الْخُزَاعِیِّ عَنْ عَمِّہِ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِاَسْلَمَ: ((صُوْمُوا الْیَوْمَ۔)) قَالُوْا: إِنَّا قَدْ اَکَلْنَا قَالَ: ((صُوْمُوْا بَقِیَّۃَیَوْمِکُمْ۔)) یَعْنِییَوْمَ عَاشُوْرَائَ۔ (مسند احمد: ۲۰۵۹۵)

۔ ا بو منہال عبد الرحمن اپنے چچا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یومِ عاشورا کو بنو اسلم کے قبیلہ کے لوگوں سے فرمایا: آج روزہ رکھو۔ انہوں نے کہا: ہم نے تو کھا پی لیا ہے،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بقیہ دن کا روزہ رکھ لو۔
Haidth Number: 3708
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۷۰۸) تخر یـج: صحیح لغیرہ۔ اخرجہ ابوداود: ۲۴۴۷، والنسائی: ۲۸۵۰ (انظر: ۲۰۳۲۹)

Wazahat

فوائد:… شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: یہ حدیث ِ مبارکہ دو اہم فوائد پر مشتمل ہے: (اول):… ابتدائے اسلام میں عاشورا (محرم کی دس تاریخ) کا روزہ فرض تھا، جیسا کہ اس کے لیے کیے گئے اہتمام اور کھانا کھا لینے والوں کو دن کے باقی حصے کا روزہ رکھنے کے حکم سے عیاں ہو رہا ہے، کیونکہ نفلی روزے میں اس قسم کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا کہ صبح کھانا کھا لینے کے بعد اس کی تکمیل کی جائے، جیسا کہ ابن قیم ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے (تہذیب السنن: ۳/ ۳۲۷)میں اس کی وضاحت کی ہے۔ نیز اس موضوع کی دیگر احادیث سے بھی معلوم ہوتاہے کہ یہ عاشورا کا روزہ فرض تھا، رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد عاشورا کا روزہ مستحب قرار دیا گیا۔ (دوم):… جس آدمی پر روزہ سحری کے وقت کے گزر جانے کے بعد فرض ہو، مثلا: سحری کا وقت گزر جانے کے بعد کسی وقت پاگل کی دیوانگی کا دور ہو جانا، بچے کا بالغ ہو جانا، کافر کا مشرّف باسلام ہونا اور رمضان کے چاند کے نظر ٓنے کی اطلاع موصول ہونا۔ ان تمام صورتوں میں ان تمام افراد پر جب روزہ فرض ہو گا، اسی وقت ان کا نیت کر لینا کافی ہو گا، اگرچہ انھوں نے کھا پی بھی لیا ہو، مجبوری کییہ حالتیں درج ذیل حدیث سے مستثنی ہوں گی: ((مَنْ لَمْ یُجْمِعِ الصِّیَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِیَامَ لَہٗ۔)) ’’جسنےطلوعفجرسےپہلےپہلےروزےکی نیت نہ کی، اس کا کوئی روزہ نہیں ہو گا۔‘‘ یہ صحیح حدیث ہے، میں نے (صحیح أبی داود: ۲۱۱۸) میں اس کی تحقیق پیش کی ہے۔ ہم نے اس حدیث سے جو استدلال پیش کیا ہے، امام ابن حزم، امام ابن تیمیہ امام شوکانی اور دیگر محققین کی بھییہی رائے ہے۔ اعتراض:… اس حدیث کا تعلق تو یوم عاشورا سے ہے، جبکہ اس سے استدلال کر کے رمضان کے بارے میں جو دعوی پیش کیا گیا ہے، وہ عام ہے؟ جواب:… لفظوں کی حد تک یہ اعتراض درست ہے، حقیقتیہ ہے کہ عاشورا کا روزہ بھی فرض تھا اور رمضان کے روزے بھی فرض ہیں، دونوں کا مشترک وصف فرضیت ہے، اس لیے ہمارا استدلال درست ہے۔ ابو الحسن سندھی نے سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں کہا: جو احادیث عاشورا کے روزے کی فرضیت پر دلالت کرتی ہیں، ان میں سے ایک حدیثیہ بھی ہے، جس کے مطابق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس روزے کا اتنا اہتمام کیا کہ اس سے اس کا فرض ہونا لازم آتا ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ دوسری احادیث اس روزے کے منسوخ ہونے کی شہادت دیتی ہیں اور اس کی منسوخیت پر علمائے امت کا اتفاق ہے۔ لیکن اس روزے کے منسوخ ہونے کے باوجود اس سے یہ استدلال کرنا درست ہے کہ دن کو فرضی روزے کی نیت کی جا سکتی ہے۔ اس استدلال کے جواب میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ عاشورا کا روزہ تو منسوخ ہو چکا ہے، اس لیے اس حدیث سے کوئی استدلال کرنا بے معنی ہو گا، کیونکہ ہم یہکہتے ہیں کہ یہ حدیث دو امور پر دلالت کرتی ہے: (۱) عاشورا کا روزہ فرض ہے اور (۲) دن کو بھی فرضی روزے کی نیت کی جا سکتی ہے۔ پہلا حکم منسوخ ہو چکا ہے، لیکن اس کے نسخ سے دوسرے حکم کا منسوخ ہونا لازم نہیں آتا۔ ابھی تک ایک مسئلہ باقی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں پر رات کو روزے کی نیت کرنا اس وقت فرض ہوتا ہے، جب ان کو روزے کا علم ہو، اگر طلوع فجر کے بعد دن کے کسی حصے میں پتہ چلے کہ آج تو یکم رمضان ہے، تو ایسی صورت میں اسی وقت نیت کرنا ضروری ہو جاتا ہے، اگر رات کو ہیرمضان کا چاند نظر آنے کا علم ہو جائے تو سحری سے پہلے روزے کی نیت کرنا فرض ہو جاتا ہے۔ میں (البانی) کہتا ہوں کہ مختلف نصوصِ شرعیہ میں یہی جمع و تطبیق حق ہے۔ امام ابن حزم کی (المحلی: ۶/ ۱۱۶) میں پیش کی گئی بحث کا خلاصہ بھییہی ہے، انھوں نے اپنی بحث کے آخر میں کہا: سلف کی ایک جماعت کابھییہی مسلک ہے، جیسا کہ عبد الکریم جزری بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے یکم رمضان کی صبح ہو جانے کے بعد یہ گواہی دی کہ انھوں نے رات کو چاند دیکھا تھا۔ ان کی اس شہادت کو معتبر سمجھتے ہوئے عمر بن عبد العزیز نے یہ حکم نافذ کیا: جس نے کچھ کھا پی لیا ہے، وہ دن کے بقیہ حصے میں (کھانے پینے سے) رکا رہے اور جس نے کھایا پیانہیں، وہ اس دن کا روزہ پورا کرے۔ (المصنف لابن ابی شیبہ: ۳/ ۶۹ وسندہ صحیح علی شرط الشیخین) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کا بھییہی مسلک ہے، وہ (الاختیارات العلمیۃ: ۴/۶۳) میں کہتے ہیں: دن کو فرض روزے کی نیت کر لینا بھی درست ہے، لیکنیہ حکم اس شخص کے لیے جسے رات کو روزوں کی فرضیت کا علم نہ ہو سکا اور طلوع فجر کے بعد دن کے کسی وقت میں شہادتوں کے ذریعے رات کو رمضان کا چاند نظر آنے کا پتہ چلا، ایسا شخص بقیہ دن کا روزہ پورا کرے، اس پر کوئی قضا نہیں ہو گی، اگرچہ اس نے کچھ کھا پی بھی لیا ہو۔‘‘ پھر امام ابن قیم اور امام شوکانی نے بھییہی مسلک اختیار کیا، تفصیلی بحث کا خواہشمند درج ذیل کتب کامطالعہ کرے: مجموع الفتاوی: ۲۵/۱۰۹ ، ۱۱۷۔ ۱۱۸، زاد المعاد: ۱/۲۳۵، تھذیب السنن: ۳/۳۲۸، نیل الاوطار: ۴/۱۶۷ (صحیحہ: ۲۶۲۴)