Blog
Books
Search Hadith

روزہ افطارکرنے کا وقت

۔ (۳۷۱۰) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ): قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَفَرٍ وَہُوَ صَائِمٌ فَدَعَا صَاحِبَ شَرَابِہِ بِشَرَابٍ‘ فَقَالَ صَاحِبُ شَرَابِہِ: لَوْ اَمْسَیْتَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ثُمَّ دَعَاہُ فَقَالَ لَہُ: لَوْ اَمْسَیْتَ ثَلَاثًا‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِذَا جَائَ اللَّیْلُ مِنْ ہٰہُنَا فَقَدْ حَلَّ الإِفْطَارُ اَوْ کَلِمَۃً ہٰذَا مَعْنَاہَا (وَفِی لَفْظٍ) إِذَا رَاَیْتُمُ اللَّیْلَ قَدْ اَقْبَلَ مِنْ ہٰہُنَا فَقَدْ اَفْطَرَ الصَّائِمُ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۳۳)

۔ (دوسری سند) سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک سفر میں تھے، چونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روزہ رکھا ہوا تھا اس لیے (افطاری کے وقت) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پینے کا انتظام کرنے والے کو بلایا اور مشروب لانے کا حکم دیا۔ آگے سے اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! شام تو ہو لینے دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دوبارہ بلایا، اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول! شام تو ہو لینے دیں۔ تین بار ایسے ہوا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب (مشرق) سے رات آجائے تو افطاری کا وقت ہو جاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: جب تم دیکھو کہ (مشرق) سے رات آ گئی ہے تو روزہ دار کے افطار کا وقت ہو جاتا ہے۔
Haidth Number: 3710
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۷۱۰) تخر یـج: انظر الحدیث بالطریق الاول

Wazahat

فوائد:… ابو داود کی روایت میں وضاحت ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ خدمت کرنے والے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌تھے۔ ’’شام تو ہو لینے دیں۔‘‘ یہ جملہ کہنے والے کا خیال تھا کہ جو روشنی اور سرخی نظر آ رہی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ سورج ابھی تک غروب نہیں ہوا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضاحت کر دی کہ دن ختم ہو چکا ہے اور رات شروع ہو چکی ہے۔ یہ حدیث ِ مبارکہ یہ درج ذیل تین اہم امور پر دلالت کرتی ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روزہ افطار کرنے میں غروبِ آفتاب کے فوراً بعد اس قدر جلدی فرمائی کہ صحابییہ سمجھ رہا تھا کہ سورج ابھی تک غروب نہیں ہوا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کے ساتھ ان کی تین دفعہ مراجعت کے باوجود حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا اور ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے نرمی و ملاطفت سے کام لیا۔ اگر کسی آدمی کو یہ اندیشہ ہونے لگے کہ عالم سے نسیانیا غلطی ہو رہی ہے اور اس بنا پر وہ یاددہانی کرائے تو عالم کو چاہیے کہ اگر اس آدمی کو ہونے والے اشکال کی گنجائش موجود ہو تو اس کی بات محسوس نہ کرے اور اصل مسئلہ کی وضاحت کر دے۔