Blog
Books
Search Hadith

روزے دار کے لیے مسواک کرنے، کلی کرنے، ناک میںپانی چڑھانے اور گرمی کی وجہ سے غسل کرنے کے جواز کا بیان

۔ (۳۷۶۹) عَنْ اَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: رَاَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْکُبُ عَلٰی رَاْسِہِ الْمَائَ بِالسُّقْیَا، إِمَّا مِنْ الْحَرِّ وَإِمَّا مِنَ الْعَطَشِ، وَہُوَ صَائِمٌ، ثُمَّ لَمْ یَزَلْ صَائِمًا حَتّٰی اَتٰی کَدِیْدًا، ثُمَّ دَعَا بِمَائٍ فَاَفْطَرَ وَاَفْطَرَ النَّاسُ وَہُوَ عَامُ الْفَتْحِ۔ زَادَ فِی رِوَایَۃٍ: قَالَ الَّذِی حَدَّثَنِی فَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصُبُّ الْمَائَ عَلٰی رَاْسِہِ مِنَ الْحَرِّ وَہُوَ صَائِمٌ۔ (مسند احمد: ۲۳۵۷۷)

۔ ایک صحابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کودیکھا کہ سقیا مقام پر آپ کے سر پر گرمییا پیاس کی وجہ سے پانی ڈالا جا رہا تھا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روزے دار تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روزہ قائم رکھا، یہاں تک کہ کدید مقام تک پہنچ گئے، وہاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پانی منگوایا اور روزہ افطار کر دیا اور لوگوں نے بھی روزہ توڑ دیا،یہ فتح مکہ (کے سفر کے دوران کا) واقعہ ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں:مجھے بیان کرنے والے نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گرمی کی شدت کی وجہ سے سر پر پانی ڈال رہے تھے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روزے کی حالت میں تھے۔
Haidth Number: 3769
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۷۶۹) تخر یـج: اسنادہ صحیح۔ اخرجہ ابوداود: ۲۳۶۵ (انظر: ۲۳۱۹۰)

Wazahat

فوائد:… نہانا، سرپر پانی ڈالنا، کلی کرنا، مسواک کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا، اِن سب امور کا روزہ کے ٹوٹنے سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ ناک میں پانی چڑھاتے وقت مبالغہ نہیں کرنا چاہیے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ پانی حلق میں اتر جائے، جیسا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((وَبَالِغْ فِیْ الْاِسْتِنْشَاقِ، اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ صَائِمًا۔)) ’’ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کر، الّا یہ کہ تو روزے دار ہو۔‘‘ (سنن اربعہ) اس حدیث سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ کلی اور مسواک کرتے وقت بداحتیاطی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اسی طرح آنکھوں میں سرمہ ڈالنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ کسی شرعی دلیل کے ذریعے روزے دار پراس کی پابندی نہیں لگائی گئی اور جن احادیث میں سرمہ ڈالنے کی ترغیب دلائی گئی، ان کو کسی تخصیصیا قید کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا، البتہ ایسے قطروں کے ڈالنے سے بچنا جائے جن کے حلق پر اتر جانے کا خطرہ ہو۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ چونکہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ اور محبوب ہوتی ہے، اس لیے روزہ کی حالت میں مسواک نہیں کرنا چاہیے، تاکہ وہ بو زائل نہ ہو جائے، تو گزارش ہے کہ اس بو کا تعلق معدے کے خالیہو جانے سے ہے، مسواک وغیرہ کے ذریعے منہ کی صفائی اور بات ہے اور معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے منہ کی بو کا متغیر ہو جانا اور بات ہے۔