Blog
Books
Search Hadith

جنابت کی حالت میں صبح کرنے والے، جبکہ وہ روزے دار بھی ہو، کا بیان

۔ (۳۷۹۹) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اَنَّ َرَجُلاً سَاَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! تُدْرِکُنِیَ الصَّلَاۃُ وَاَنَا جُنُبٌ وَاَنَا اُرِیْدُ الصِّیَامَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَاَنَا تُدْرِکُنِیَ الصَّلَاۃُ وَانَاَ جُنْبٌ وَاَنَا اُرِیْدُ الصِّیَامَ فَاَغْتَسِلُ ثُمَّ اَصُوْمُ۔)) فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّا لَسْنَا مِثْلَکَ، فَقَدْ غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ، فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((وَاللّٰہِ! إِنِّی لَاَرْجُو اَنْ اَکُوْنَ اَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاَعْلَمَکُمْ بِمَا اَتَّقِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۸۹)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! میں جنابت کی حالت میں ہوتا ہوں اور مجھے نماز فجر پا لیتی ہے، جبکہ میرا روزہ رکھنے کا بھی ارادہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں کیا کروں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (میرے ساتھ بھی ایسے ہوتا ہے کہ) میںجنبی ہوتا ہوں اور مجھے نماز پا لیتی ہے، جبکہ روزہ رکھنے کا ارادہ بھی ہوتا ہے، تو میں غسل کرتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں۔ اس بندے نے کہا: ہم تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جیسے نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تو اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں،یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غصے میں آ گئے اور فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ میں تم میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں اور میں تم سب سے زیادہ جانتا ہوں کہ مجھے کن باتوں سے بچنا چاہیے۔
Haidth Number: 3799
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۷۹۹) تخر یـج: اخرجہ مسلم: ۱۱۱۰(انظر: ۲۴۳۸۵)

Wazahat

فوائد:… ’’مجھے نماز فجر پا لیتی ہے‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ اس آدمی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف ہو چکے ہیں، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ احکام میں نرمی کی جا سکتی ہے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضاحت فرما دی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو اس فضیلت و منقبت کے باوجود تقوی کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ مسلمان کو ہر کام میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے افعال کی اقتدا کرنی چاہیے، ما سوائے ان امور کے جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ خاص ہوں۔