Blog
Books
Search Hadith

سحری تک وصال کرنے کی رخصت

۔ (۳۸۱۹) عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ اَعْرَابِیًّا جَائَ یَلْطِمُ وَجْہَہُ وَیَنْتِفُ شَعْرَہُ، وَیَقُوْلُ: مَا اُرَانِی إِلَّا قَدْ ہَلَکْتُ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَمَا اَھْلَکَکَ؟)) قَالَ: اَصَبْتُ اَہْلِی فِی رَمَضَانَ، قَالَ: ((اَتَسْتَطِیْعُ اَنْ تُعْتِقَ رَقَبَۃً؟)) قَالَ: لَا، قَالَ: ((اَتَسْتَطِیْعُ اَنْ تَصُوْمَ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ؟)) قَالَ: لاَ، قَالَ: ((اَتَسْتَطِیْعُ اَنْ تُطْعِمَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا؟)) قَالَ: لاَ، وَذَکَرَ الْحَاجَۃَ، قَالَ: فَاُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِزِنْبِیْلٍ، وَہُوَ الْمِکْتَلُ فِیْہِ خَمْسَۃَ عَشَرَ صَاعًا اَحْسَبُہُ تَمْرًا، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰیآلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ: ((اَیْنَ الرَّجُلُ؟)) قَالَ: ((اَطْعِمْ ہٰذَا۔)) قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَابَیْنَ لَا بَتَیْہَا اَحَدٌ اَحْوَجُ مِنَّا اَہْلُ بَیْتٍ۔ قَالَ: فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی بَدَتْ اَنْیَابُہُ، قَالَ: ((اَطْعِمْ اَہْلَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۰۶۹۹)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ چہر ے پر ہاتھ مارتے ہوئے اور بالوں کو نوچتے ہوئے ایک بدّو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور یہ کہنے لگا: میرا خیال تو یہی ہے کہ میں ہلاک ہو گیا ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: کس چیز نے تجھے ہلاک کر دیا ہے؟ اس نے کہا: میں ماہِ رمضان میں (روزے کی حالت میں) اپنی بیوی سے ہم بستری کر بیٹھا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم ایک گردن (غلام یا لونڈی) آزاد کرنے کی استطاعت رکھتے ہو؟ اس نے کہا: جی نہیں۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم دو ماہ مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا: جی نہیں، پھر اس نے اپنے فقرو فاقہ کا بھی ذکر کیا،اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک ٹوکرا لایا گیا، جس میں پندرہ صاع کھجور تھی۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: وہ آدمی کہاں ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کھجوریں (مسکینوں کو) کھلا دو۔ آگے سے اس نے کہا:اے اللہ کے رسول! مدینہ کے دو حرّوں (سیاہ پتھروں والے میدان) کے درمیان کوئی بھی گھر والے مجھ سے زیادہ محتاج نہیں ہیں۔ یہ بات سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر ہنسے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھیں دکھائی دینے لگیں اور پھر فرمایا: تو پھر اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔
Haidth Number: 3819
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۸۱۹) تخر یـج: اخرجہ البخاری: ۶۷۰۹، ۶۷۱۱، ومسلم: ۱۱۱۱(انظر: ۱۰۶۸۸)

Wazahat

فوائد:… آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مسکرانے کی وجہ یہ تھی کہ جب یہ آدمی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا تھا تو اپنے آپ کو ہلاک ہونے والا سمجھ رہا تھا ، چہر ے پر ہاتھ مارتے ہوئے اور بال نوچتے ہوئے آیا، اپنے نفس کے بارے میں ڈر رہا تھا اور جیسے ممکن ہو اس جرم کی تلافی کرنا چاہتا تھا، لیکن جب اس کو رخصت والا معاملہ نظر آیا تو کفارے کے لیے دیئے گئے مال کو خود کھا جانے کا حریص بن گیا۔