Blog
Books
Search Hadith

رمضان کے دن میں مجامعت کرنے والے کے کفارہ کا بیان

۔ (۳۸۲۴) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ اَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ، حَدَّثَہُ اَنَّ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا حَدَّثَتْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَا ہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ فَارِعِ اُجُمِ حَسَّانَ، جَائَ رَجُلٌ فَقَالَ: اِحْتَرَقْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟)) قَالَ: وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِی وَاَنَا صَائِمٌ، قَالَ: وَذَاکَ فِی رَمَضَانَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِجْلِسْ۔)) فَجَلَسَ فِی نَاحِیَۃِ الْقَوْمِ فَاَتٰی رَجُلٌ بِحِمَارٍ عَلَیْہِ غِرَارَۃٌ، فِیْہَا تَمْرٌ۔ قَالَ: ہٰذِہِ صَدَقَتِیْیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( اَیْنَ الْمُحْتَرِقُ آنِفًا؟)) فَقَالَ: ہَا ہُوَ ذَا اَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((خُذْ ہٰذَا، فَتَصَدَّقْ بِہِ۔)) قَالَ: وَاَیْنَ الصَّدَقَۃُیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِلَّا عَلَیَّ وَلِی، فَوَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا اَجِدُ اَنَا وَعِیَالِی شَیْئًا، قَالَ: ((فَخُذْہَا۔)) فَاَخَذَہَا۔ (مسند احمد: ۲۶۸۹۱)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا حسان بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قلعہ کے سائے میں تشریف فرما تھے، ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں تو جل گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: بات کیا ہے؟ اس نے کہا: میں ماہ رمضان میں روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستری کا ارتکاب کر بیٹھا ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیٹھ جائو۔ وہ لوگوں کی ایک طرف بیٹھ گیا، اتنے میں ایک آدمی اپنے گدھا پر ایک بورا لاد کر لایا، اس میں کھجوریں تھیں اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میری طرف سے صدقہ ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جلنے والا کہاں ہے، جو ابھی بات کر رہا تھا؟ وہ خود بولا: جی اے اللہ کے رسول! وہ یہ میں ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! صدقہ کہاں ہو گا، مگر مجھ پر اور میرے لیے، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میرے اور میرے گھر والوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اس کو لے جاؤ۔ پس وہ لے کر چلا گیا۔
Haidth Number: 3824
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۸۲۴) تخر یـج: اخرجہ البخاری: ۶۸۲۲، ومسلم: ۱۱۱۲(انظر: ۲۶۳۵۹)

Wazahat

فوائد:… یہ روایتیہاں مختصر ہے، صحیح بخاری میں غلام کو آزاد کرنے اور دو ماہ کے روزے رکھنے کا ذکر موجود ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہونے والے احکام درج ذیل ہیں: (۱)جو آدمی روزے کی حالت مجامعت کرے گا، اس پر یہ کفارہ لازم آئے گا: ایک غلام آزاد کرنا، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے لگاتار روزے رکھنا اور اگر ان کی طاقت بھی نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ حدیث نمبر (۳۸۲۱) سے معلوم ہوا کہ غلام کو آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھنے والا اونٹ کا صدقہ کردے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو روزوں والا حکم اختیار کرے، حسن بصری نے اس کفارے میں اونٹ کے ثبوت کا فتوی دیا ہے۔ (۲)یہ کفارہ روزے کی حرمت کو پامال کرنے کا ہے، اس لیے اس کی ادائیگی کے باوجود روزے کی قضائی دینا پڑے گی۔ (۳) اگر کسی آدمی میں کفارہ کی کوئی شق پوری کرنے کی طاقت نہ ہو تو وہ کچھ کیے بغیر بریٔ الذمہ ہو جائے گا، اس حدیث ِ مبارکہ سے بھی اسی چیز کا ثبوت ملتا ہے اور {لَایُکَلِّفَ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا} میں بیان کیے گئے قانون کا بھییہی تقاضا ہے۔ (۴) ایک انتہائی مسئلہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں عورت پر کفارہ پڑے گا یا نہیں؟ اور اگر کفارہ پڑے گا تو اس حدیث میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ بلا شک و شبہ جس جرم کی وجہ سے خاوند کو یہ کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے، وہی جرم عورت میں بھی پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ زانی مرد و زن، وہ شادی شدہ ہوں یا کنوارے، سب کی سزا برابر برابر ہے (یعنی مرد اور عورت کی حیثیت میں زنا کی سزا ایک ہے، مختلف نہیں، ہاں یہ بات الگ ہے کہ کنوارے اور شادی شدہ کی سزا میں فرق ہے)، اس لیے روزے کی حالت میں مجامعت کرنے والی خاتون الگ سے اپنا کفارہ ادا کرے گی، رہا یہ سوال اس موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیوی کے کفارے کا ذکر کیوں نہیں کیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ جو مجرم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دربار میں کھڑا ہوتا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی توجہ کو اسی پر مرکوز کرتے تھے اور اس سے متعلقہ دوسرے مجرم کی تفتیش از خود نہیں کرتے تھے، کتاب الحدود میں زنا سے متعلقہ اس قسم کی مثالوں کا ذکر آئے گا، کتاب الحدود کا آغاز حدیث نمبر (۶۶۲۱) سے ہو گا، ہاں اگر دوسرے مجرم کا واضح الفاظ میں ذکر کر دیا جاتا تو پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی بھی تفتیش کرتے تھے، جیسا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا انیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کویہ حکم دے کر ایک خاتون کی طرف بھیجا کہ اگر وہ اعترافِ جرم کر ے تو اسے رجم کر دینا۔ اس تحقیق کی وجہ یہ تھی کہ اس موقع پر دو دفعہ اس خاتون کا بطورِ مجرمہ تذکرہ کیا گیا، ایسے میں حاکم کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ دوسرے مجرم کے معاملے کو بھی سنجیدگی سے لے۔ اب چونکہ روزے کی حالت میں مجامعت کرنے والے اس مرد نے اپنی بیوی کا بطورِ مجرمہ کوئی تذکرہ نہیں، بلکہ ایک روایت کے الفاظ تو یہ ہیں کہ اس بندے نے کہا: ’’میں نے اپنی بیوی سے ہم بستری کر لی ہے، جبکہ میں روزے دار تھا۔‘‘ جبکہ اس چیز کا بھی احتمال ہے کہ بیوی نے کسی عذر کی بنا پر روزہ ہی نہ رکھا ہوا ہو، یا خاوند کے سامنے مجبور ہو گئی ہو، یا وقتی طور پر روزے کو بھول گئی ہو، امام خطابی نے بھییہ وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام ابو ثور اور امام ابن منذر اور ایک روایت کے مطابق امام احمد اسی نظریے کے قائل ہیں کہ بیوی پر الگ سے کفارہ ہو گا۔ (۵)ان احادیث سے یہ بھی اندازہ لگا لیناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شرعی حدود کی کتنی اہمیت ہے کہ جب خاوند روزے کا پاس و لحاظ رکھے بغیر اپنی بیوی سے ہم بستری کر بیٹھتا ہے تو اسے اتنا بڑا کفارہ دینے کا مکلف بنایا جاتا ہے۔