Blog
Books
Search Hadith

مریض، بوڑھے، حاملہ اور مرضِعہ کے روزے کے حکم کا بیان

۔ (۳۸۵۱) عَنْ مُعاذِ بْنِ جَبْلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌مِنْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ تَقَدَّمَ فِی بَابِ اْلاَحْوَالِ الَّتِی عُرِضَتْ لِلصِّیَامِ رَقَم (۳۱) صَفحۃ (۲۳۹) مِنَ الْجُزْئِ التَّاسِعِ قَالَ: ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ اَنْزَلَ اْلآیَۃَ الْاُخْرٰی {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنَ} إِلٰی قَوْلِہٖ {فَمَنْشَہِدَمِنْکُمُالشَّہْرَفَلْیَصُمْہُ} قَالَ: فَاَثْبَتَ اللّٰہُ صِیَامَہُ عَلَی الْمُقِیْمِ الصَّحِیْحِ وَرَخَّصَ فِیْہِ لِلْمَرِیْضِ وَالْمُسَافِرِ، وَثَبَتَ الإِطْعامُ لِلْکَبِیْرِ الَّذِی لَا یَسْتَطِیْعُ الصِّیَامَ۔ (مسند احمد: ۲۲۴۷۵)

۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ایک طویل حدیث ہے، جو جز نمبر ۹، حدیث نمبر (۳۱) اور صفحہ نمبر (۲۳۹) میں باب الاحوال التی عرضت للصیام میں گزر چکی ہے، اس میں ہے:پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی… شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} (سورۂ بقرہ: ۱۸۵) یعنی: ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں لوگوں کو ہدایت کے لئے اور ہدایت کے واضح دلائل بیان کرنے کے لئے قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، جو حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے، اب تم میں سے جو آدمی اس مہینہ کو پائے وہ روزے رکھے۔) تو اللہ نے تندرست اور مقیم آدمی پر روزہ فرض کر دیا اور مریض اورمسافر کو رخصت دے دی اور جو عمر رسیدہ آدمی روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کے لیے (مسکین کو) کھانا کھلانا مشروع ٹھہرا۔
Haidth Number: 3851
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۸۵۱) تخر یـج: قال الالبانی: صحیح (ابوداود: ۵۰۶، ۵۰۷)۔ اخرجہ ابوداود: ۵۰۷ (انظر: ۲۲۱۲۴)

Wazahat

فوائد:… یہ حوالہ مصنف کا ہے، آپ اگر پوری حدیث پڑھنا چاہیں تو کتاب الصیام کی حدیث نمبر (۳۶۷۳) کا مطالعہ کریں۔ مسافر، شفاء کی امید رکھنے والے مریض، مستقل مریض اور روزہ کی طاقت نہ رکھنے والا عمر رسیدہ آدمی، اِن چاروں افراد کے احکام واضح ہیں کہ اول الذکر دو افراد قضائی دیں گے اور مؤخر الذکر ہر روزے کے عوض ایک ایک مسکین کھانا کھلا کر کفارہ دیں گے۔ ہماری مراد وہ مریض ہے، جس کے لیے روزہ رکھنا بہت مشکل ہویا روزے کی وجہ سے اس کی بیماری بڑھ سکتی ہو یا شفا میں زیادہ تاخیر ہو سکتی ہو۔ حَامِلَہ (حمل والی) اور مُرْضِعَہ (دودھ پلانے والی) خواتین کے بارے میں سوال یہ ہے کہ وہ روزوں کی قضائی دیں گییا کفارہ ادا کریں گی؟ اس مسئلے کا دارومدار اس بات پر بھی ہے کہ درج ذیل آیت منسوخ ہے یا محکم: { وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} ’’اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں ، وہ (روزہ کی بجائے) ایک مسکین کوبطور فدیہ کھانا کھلا دیا کریں۔‘‘ اس کے بارے میں دو آراء ہے، ایک رائے یہ کہ آیت منسوخ ہو چکی ہے اور درج ذیل آیت اس کی ناسخ ہے: {فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} ’’اب تم میں سے جو آدمی اس مہینہ کو پائے وہ روزے رکھے۔‘‘ اس دعوی کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں: سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: {وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} تو جو چاہتا (روزہ رکھ لیتا اور) جو چاہتا روزہ چھوڑ دیتا اور فدیہ دے دیتا،یہاں تک کہ اس سے بعد والی آیت کے نازل اور اس نے اس کو منسوخ کر دیا۔ (بخاری: ۴۵۰۷، مسلم: ۱۱۴۵) بعد والی آیت سے مراد {فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} کے الفاظ ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے اس آیت الفاظ اس طرح پڑھے {فِدْیَۃٌ طَعَامُ مَسَاکِیْن} اور کہا: یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے۔ سیدنامعاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے مروی ہے، …… پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ماہِ رمضان کے روزے فرض کر دیئے اور یہ آیات نازل فرمائیں: {یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔} (اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں، جس طرح کہ تم سے پہلے والے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔‘‘)نیز فرمایا: {وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} (اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں ، وہ (روزہ کی بجائے) ایک مسکین کوبطور فدیہ کھانا کھلا دیا کریں۔) ان آیات پر عمل کرتے ہوئے جو آدمی چاہتا وہ روزہ رکھ لیتا اور جو کوئی روزہ نہ رکھنا چاہتا وہ بطورِ فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور یہی چیز اس کی طرف سے کافی ہو جاتی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فیِہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} (ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں لوگوں کو ہدایت کے لئے اور ہدایت کے واضح دلائل بیان کرنے کے لئے قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، جو حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے، اب تم میں سے جو آدمی اس مہینہ کو پائے وہ روزے رکھے۔) اس طرح اللہ تعالیٰ نے مقیم اورتندرست آدمی پراس مہینے کے روزے فرض کر دیئے، البتہ مریض اور مسافر کو روزہ چھوڑنے کی رخصت دے دی اور روزہ کی طاقت نہ رکھنے والے عمر رسیدہ آدمی کے لیے روزہ کی جگہ یہ حکم برقرار رکھا کہ وہ بطورِ فدیہ مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے۔ (یہ حدیث تفصیل کے ساتھ اس نمبر (۳۶۷۳)میں گزر چکی ہے) لیکن سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا خیال ہے کہ یہ آیت محکم ہے، منسوخ نہیں ہوئی، جیسا کہ عطاء کہتے ہیں: سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌نے یہ آیتیوں پڑھی: {وَعَلَی الَّذِیْنَیُطَوَّقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} (اور جن لوگوں کو روزہ رکھنے سے کلفت و مشقت ہوتی ہو، وہ (روزہ کی بجائے) ایک مسکین کوبطور فدیہ کھانا کھلا دیا کریں۔) اور پھر کہا: یہ آیت منسوخ نہیں ہے، یہ عمر رسیدہ مرد اور بڑی عمر کی خاتون کے بارے میں ہے، جو روزہ رکھنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے، ان کو چاہیے کہ وہ ہر روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ (صحیح بخاری: ۴۵۰۵) اسی نظریے کو سامنے رکھ کر ہی سیدنا عبد اللہ بن عباس اور سیدنا عبد اللہ بن عمر نے کہا: اَلْحَامِلُ وَ الْمُرْضِعُ تُفْطِرُ وَ لَا تَقْضِیْ۔ حاملہ اور مرضعہ روزہ ترک کر دیں گی اور قضائی بھی نہیں دیں گی، (یعنی کفارہ ادا کریں گی)۔ (سنن دارقطنی:۲/۲۰۷) لیکن درج ذیل تین وجوہات کی بنا پر اول الذکر یعنی اس آیت کے منسوخ ہو جانے کی رائے قوی معلوم ہوتی ہے: (۱) اکثر کی قراء ت ’’یُطِیْقُوْنَہ‘‘ ہے، نہ کہ ’’یُطَوَّقُوْنَہُ‘‘ (۲)ابن منذر نے کہا: اگر یہ الفاظ روزے کی طاقت نہ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں ہوتے تو اسی آیت کے آخری کلمات {وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ} (اور تمہارا روزہ رکھ لینا بہتر ہے) کی کوئی مناسبت باقی نہ رہتی۔ اس قول کی تفصیلیہ ہے کہ یہ کیا ہوا کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، ان کا روزہ رکھنا بہتر ہے، دراصل شروع شروع میں یہ رخصت تھی کہ جو لوگ روزہ کی صلاحیت ہونے کے باوجود روزہ نہیں رکھنا چاہتے تھے، وہ ہر روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتے تھے، ان کو کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ کفارے کی بجائے روزہ رکھ لیں تو بہتر ہے۔ (۳) اول الذکر رائے رکھنے والوں کی روایات بڑی واضح ہیں، جن سے واضح طور پر یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ الفاظ منسوخ ہو گئے ہیں: {وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} اس باب کی پہلی حدیث میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حاملہ اور مرضعہ کو مسافر کے ساتھ ذکر کیاہے، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کا حکم بھی مسافر والا ہے۔ ابراہیم نخعی اور حسن بصری نے کہا: جب حاملہ اور مرضعہ کو اپنی جانوں کا یا اپنے بچوںکا ڈر ہو تو وہ روزہ چھوڑ دیں، لیکن پھر قضائی دیں۔ (صحیح بخاری: حدیث نمبر ۴۵۰۵ سے پہلے ) اس بحث کا خلاصہ یہ کہ حاملہ اور مرضعہ کا حکم مسافر اور شفا کی امید رکھنے والے مریض کا ہے، کسی نقصان سے بچنے کے لیے وہ روزہ ترک کر سکتی ہیں، لیکن بعد میں قضائی دیں گی۔ اگر کسی خاتون کییہ صورتحال ہو کہ وہ ایک رمضان میں حاملہ ہوتی ہے اور اگلے رمضان میں مرضعہ، اگر اس کا لگاتار چھ سات سالوں تک یہی مسئلہ بنتا رہے اور اتنے برسوں کے روزے رہ جائیں تو وہ کیا کرے؟ اسے چاہیے کہ وہ اہل علم سے رابطہ کرے، اپنی صورت حال سے آگاہ کرے اور اہل علم غور کریں کہ کیا اتنے روزوںکی قضائی دینا اس کے بس کی بات ہے یا نہیں، اس مجلس میں قضائییا کفارے کا فیصلہ کر دیا جائے۔ اہم تنبیہ: اس بحث میں حاملہ اور مرضعہ سے مراد وہ خواتین ہیں کہ اگر وہ روزہ رکھیں تو ان کو یا ان کے بچوں کو کوئی نقصان ہونے کا خطرہ ہو یا عام روزے داروں کی بہ نسبت کوئی بڑی مشقت اٹھانا پڑتی ہے، ہم نے کئی ایسی خواتین کو دیکھا کہ آرام سے اپنا روزہ پورا کر لیتی ہیں، بہرحال بعض شہری خواتین ضرورت سے زیادہ نرم مزاج والی بن جاتی ہیں اور ان کییہ کوشش ہوتی ہے کہ کفارے والی رخصت ان کو مل جائے، ان سے گزارش ہے کہ کم از کم ان میں اتنا عذر ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے آپ کو معذور ثابت کر سکیں۔ مسکین کو کھانا کھلانا، اس کے بارے میں دو سوالات باقی ہیں: (۱) یہ بات معلوم ہے کہ ایک روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا، لیکن کیا ایک وقت کا کھانا کافی ہے یا دو وقتوں کا؟ (۲) اس کھانے کی مقدار کیا ہونی چاہیے؟ رہا مسئلہ ایکیا دو وقت کے کھانے کا، تو نصوص کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک روزے کے عوض ایک مسکین کا ایک وقت کا کھانا مطلوب ہے۔ ایوب بن ابی تمیمہ کہتے ہے: جب سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کمزور ہو جانے کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے تو انھوں نے ایک بڑے برتن میں ثرید کا کھانا تیار کروایا اور تیس مساکین کو بلا کر ان کو کھلا دیا۔ (ابو یعلی: ۷/ ۲۰۴، واسنادہ منقطع) قتادہ کہتے ہیں: جب سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌اپنی وفات سے ایک سال قبل روزے رکھنے سے کمزور ہو گئے تو انھوں نے روزہ رکھنا چھوڑ دیا اور ہر روز کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلایا۔ (معجم کبیر: ۱/ ۲۴۲) ایوب بن ابی تمیمہ ہی کہتے ہیں: جب ایک سال سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌روزہ رکھنے سے کمزور ہو گئے تو انھوں نے ایک بڑے برتن میں کھانا بنوایا اور تیس مسکینوں کو بلا کر ان کو سیرو سیراب کر دیا۔ (سنن دارقطنی: ۲/ ۲۰۷) کھانے کی مقدار معلوم کرنے کے لیے درج ذیل بحث کو سمجھنا ضروری ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ بِہٖاَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖفَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ} ’’البتہ تم میں سے جو بیمار ہو، یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو اس پر فدیہ ہے، خواہ روزے رکھ لے، خواہ صدقہ دے دے، خواہ قربانی کرے۔‘‘ (سورۂ بقرہ: ۱۹۶) اس آیت میں حج وعمرہ سے متعلقہ احکام بیان کیے جا رہے ہیں، جب ایک صحابی کو جوؤں کی وجہ سے تکلیف ہوئی، جبکہ اس نے عمرے کا احرام پہن رکھا تھا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: ((اِحْلِقْ ثُمَّ اذْبَحْ شَاۃً نُسُکًا اَوْ صُمْ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ اَوْ اَطْعِمْ ثَلَاثَۃَ آصُعٍ مِِنْ تَمْرٍ عَلٰی سِتَّۃِ مَسَاکِیْنَ۔)) (بخاری: ۱۸۱۴، ۱۸۱۶، مسلم: ۱۲۰۱، واللفظ لابی داود، وفی روایۃ للبخاری: ((اَوْ اَطْعِمْ سِتَّۃَ مَسَاکِیْنَ لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ نِصْفَ صَاعٍ۔)) ’’تو اپنا سر مونڈ دے اور بطورِ قربانی ایک بکری ذبح کر دے، یا تین روزے رکھ لے یا چھ مسکینوں کو کھجوروں کے تین صاع کھلا دے۔‘‘ ایک روایت میں ہے: ’’یا چھ مساکین کو کھانا کھلا دے، ہر مسکین کو نصف صاع۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر بطورِ کفارہ کسی مسکین کو کھانا کھلانا پڑ جائے تو اس کی مقدار نصف صاع (تقریباً ایک کلو پچاس گرام) ہونی چاہیے، لیکن حدیث نمبر (۳۸۱۹) والے باب کے مطابق جس آدمی نے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو یہ مقصد پورا کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دیں تھیں، اس طرح سے ہر مسکین کو صاع کاچوتھائی حصہ (تقریباً۵۲۵ گرام) آتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں کھانا کھلانے کا معیار ہی اس سے مختلف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، ویسےیوں معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم میں سے کسی پر اس قسم کا کوئی کفارہ پڑ جائے تووہ مروجہ کھانوں میں سے کوئی کھانا مساکین کو اس طرح کھلائے کہ وہ خوب سیرو سیراب ہو جائیں، بعض صحابہ کے عمل سے یہی بات ثابت ہوتی ہے، ہمارے ہاں روٹی اور سالن کو ترجیح دینی چاہیے۔ اگر کسی کا ذہن اس بات پر مطمئن نہ ہو تو وہ صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ ’’یا چھ مساکین کو کھانا کھلا دے، ہر مسکین کو نصف صاع‘‘ پر عمل کرتے ہوئے ہر مسکین کو نصف صاع کے بقدر کھانا کھلا دے۔ باقی مذکورہ بالا دو احادیث ِ مبارکہ آپ کے سامنے ہیں، آپ خود فیصلہ کریں، اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔