Blog
Books
Search Hadith

ہمیشہ کے روزے رکھنے سے ممانعت کا بیان

۔ (۳۸۸۵) عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ فُلَانًا لَا یُفْطِرُ نَہَارًا الدَّہْرَ، فَقَالَ: ((لَا اَفْطَرَ وَلَا صَامَ۔)) (مسند احمد: ۲۰۰۶۳)

۔ سیدناعمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! فلاں آدمی کسی دن کے روزے کا ناغہ نہیں کرتا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہ اس نے افطار کیا اور نہ اس نے روزہ رکھا ہے۔
Haidth Number: 3885
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۸۸۵) تخر یـج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین۔ اخرجہ النسائی: ۴/ ۲۰۶(انظر: ۱۹۸۲۵)

Wazahat

فوائد:… ’’نہ اس نے افطار کیا اور نہ اس نے روزہ رکھا۔‘‘ افطار نہ کرنے کا مفہوم تو واضح ہے کہ وہ کھانے پینے سے رکا رہا، روزہ نہ رکھنے کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے اس معاملے میں مسنون طریقے کی مخالفت کی، اجر و ثواب کا مستحق نہیں ٹھہرا اور اپنے آپ کو ایسے تکلیف دینے کے درپے ہو گیا کہ ممکن ہے کہ اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالے اور جہاد اور کئی دوسرے حقوق سے عاجز ا ٓ جائے۔ اس مسئلہ سے متعلقہ ایک فقہی بحث اگلے باب کی پہلی اور اس موضوع سے متعلقہ دوسری احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کے نبی داود علیہ السلام کے روزوں کو سب سے زیادہ فضیلت والا قرار دیا،یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا۔ سوال یہ ہے کہ اس باب میں مذکورہ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہکے روزے ناجائز ہیں۔ امام اسحاق، اہل ظاہر اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کی رائے یہ ہے کہ ان روزوں کا حکم کراہت کا ہے۔ ابن حزم اس انداز کے حرام ہونے کے قائل ہے اور قاضی عیاض نے کہا: جمہور اہل علم کا خیالیہ ہے کہ اگر کوئی آدمی عید الفطر، عیدالاضحی اور تین ایام تشریق کے روزے نہ رکھے تو اس کے لیے باقی تمام دنوں کے روزے رکھنا جائز ہے۔ امام شافعی اور ان کے اصحاب نے کہا: جب آدمی دونوں عیدوں اور ایام تشریق کے روزے نہ رکھے تو اس کے لیے باقی دنوں کے لگاتار روزے رکھنا جائز ہے، بلکہ مستحبّ ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ نہ اسے کوئی ضرر لاحق ہو اور کوئی دوسرا حق فوت ہو، بصورتِ دیگر اس کے لیےیہ روزے مکروہ ہوں گے، ان کی دلیل درج ذیل حدیث ہے: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ بیان کرتی ہیں کہ سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی رَجُلٌ اَسْرُدُ الصَّوْمَ، اَفَاَصُوْمُ فِی السَّفَرِ؟ قَالَتْ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( إِنْ شِئْتَ فَصُمْ وَإِنْ شِئْتَ فَاَفْطِرْ۔)) اے اللہ کے رسول! میں لگاتار روزے رکھتا ہوں، آیا میں سفر میں روزہ رکھ لیا کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو روزہ رکھ لو اور چاہو تو چھوڑ دو۔‘‘ (بخاری: ۱۹۴۲، ۱۹۴۳، مسلم: ۱۱۲۱) وجۂ استدلال یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس صحابی کو لگاتار روزے رکھنے پر برقرار رکھا، سیدنا عبد اللہ بن عمر، سیدہ عائشہ، سیدنا ابو طلحہ اور کئی سلف بھی لگاتار روزے رکھا کرتے تھے۔ اس رائے کے قائلین نے اس باب کی احادیث کے درج ذیل جوابات دیئے: (۱)ان احادیث کو ان کے حقیقی معانی پر محمول کیا جائے گا، یعنی ان سے مراد یہ ہے کہ دونوں عیدوں اور ایام تشریق سمیت ہمیشہ کے روزے رکھے جائیں۔ (۲) یا ان احادیث کا مصداق وہ شخص ہے، جس کو اس طرح روزے رکھنے سے کوئی ضرر لاحق ہو جاتا ہے یا اس سے کوئی حق فوت ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کو فرمایا تھا: ((لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْاَبَدَ۔)) ’’اس نے روزہ نہیں رکھا، جس نے ہمیشہ روزے رکھے۔‘‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو علم تھا کہ یہ صحابی ان روزوں سے عاجز آ جائیں گے اور ایسے ہی ہوا کہ کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کو جن روزوں کی اجازت دی تھی، وہ بھی ان کے لیے مشکل ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ اس بات پر ندامت کا اظہار کرتے تھے کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رخصت قبول کیوں نہیں کی تھی۔ جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا حمزہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کو لگاتار روزے رکھنے کی اجازت دے دی تھی، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ اندازہ تھا کہ یہ صحابی ضرر سے محفوظ رہے گا۔ (۳) ’’لَا صَامَ‘‘ کے الفاظ اس آدمی کے حق میں بمعنی خبر ہیں، نہ کہ بمعنی دعا، جو ان روزوں سے بڑی مشقت محسوس کرتا ہے۔ رہا اس آدمی کا مسئلہ جو نہ مشقت محسوس کرتا اور نہ کوئی دوسرا حق فوت ہونے دیتا ہے اور نہ ممنوعہ دنوں کے روزے رکھتا ہے تو اس کے لیے تو لگاتار روزے مستحبّ ہوں گے، جب سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سے ہمیشہ کے روزوں کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انھوں نے کہا: کنا نعد اولئک فینا من السابقین۔ … ہم اپنے اندر ایسے لوگوں کو آگے بڑھ جانے والوں میں شمار کرتے تھے۔ (سنن بیہقی) عروہ کہتے ہیں: سفر ہو یا حضر، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ہمیشہ کے روزے رکھتی تھیں۔ (سنن بیہقی) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کہتے ہیں: سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌جہاد کی وجہ سے عہد ِ نبوی میں روزے نہیں رکھتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فوت ہوئے تو میں نے ان کو عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ روزہ ترک کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (صحیح بخاری) امام نووی نے ’’المجموع‘‘ میں دو عیدوں اور ایام تشریق کے علاوہ ہمیشہ کے روزے رکھنے والوں کے نام ذکر کیے ہیں، ان میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، سیدنا ابو طلحہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، سیدنا ابو امامہ اور ان کی بیوی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اور سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ۔ سعید بن مسیب، ابو عمرو بن حماس، سعید بن ابراہیم، اسود بن یزید وغیرہ نے بھی ہمیشہ کے روزے رکھے، سعید بن ابراہیم نے چالیس سال لگاتار روزے رکھے تھے۔ جمہور اہل علم کا مسلک راجح معلوم ہوتا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔