Blog
Books
Search Hadith

ان ایام کا بیان کہ جن میں روزہ رکھنا مستحب یا مکروہ ہے

۔ (۳۸۸۶) عَنْ اَبِی قَتَادَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَجُلاً سَاَلَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ صَوْمِہِ فَغَصِبَ، فَقَالَ: عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: رَضِیْتُ اَوْ قَالَ: رَضِیْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالإِسْلَامِ دِیْنًا، قَالَ: وَلَا اَعْلَمُہُ إِلَّا قَدْ قَالَ: وَبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلاً وَبِبَیْعَتِنَا بَیْعَۃً، قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ اَوْ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! رَجُلٌ صَامَ الْاَبَدَ، قَالَ: ((لَا صَامَ وَلَا اَفْطَرَ اَوْ مَا صَامَ وَمَا اَفْطَرَ۔)) قَالَ: صَوْمُ یَوْمَیْنِ وَإِفْطَارُ یَوْمٍ؟ قَالَ: ((وَمَنْ یُطِیْقُ ذَالِکَ؟)) قَالَ: لَیْتَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَوَّانَا لِذَالِکَ ، قَالَ: صَوْمُ یَوْمٍ وَإِفْطَارُ یَوْمٍ؟ قَالَ: ذَاکَ صَوْمُ اَخِیْ دَاوُدَ، قَالَ: صَوْمُ الْإِثْنَیْنِ وَالْخَمِیْسِ؟ قَالَ: ذَاکَ یَوْمٌ وُلِدْتُّ فِیْہِ، وَاُنْزِلَ عَلَیَّ فِیْہِ، قَالَ: صَوْمُ ثَلَاثَۃِ اَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرِ، وَرَمَضَانَ إِلٰی رَمَضَانَ؟ قَالَ: ((صَوْمُ الدَّہْرِ وَإِفْطَارُہُ۔)) قَالَ: صَوْمُ یَوْمِ عَرَفَۃَ؟ قَالَ: ((یُکَفِّرُ السَّنَۃَ الْمَاضِیَۃَ وَالْبَاقِیَۃَ۔)) قَالَ: صَوْمُ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ؟ قَالَ: ((یُکَفِّرُ السَّنَۃَ الْمَاضِیَۃَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۹۰۵)

۔ سیدناابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے روزوں کے بارے میں سوال کیا، اس پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غصہ آ گیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رسول ہونے پر اور اپنی بیعت کے حق ہونے پر راضی ہیں، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا کوئی دوسرا آدمی اٹھا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک آدمی ہمیشہ کے روزے رکھتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ نہ روزہ رکھتا ہے اور نہ افطار کرتا ہے۔ اس نے پوچھا: دو دن روزہ اور ایک دن ناغہ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی استطاعت کون رکھتا ہے؟کاش کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اتنی طاقت دے دیتا۔ اس نے پوچھا: ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے بھائی دائود علیہ السلام کا روزہ اسی طرح ہوتا تھا۔ اس نے پوچھا: سوموار اور جمعرات کے روزے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس دن کو میری ولادت ہوئی اور اسی میں مجھ پر قرآن کا نزول شروع ہوا۔ اس نے پوچھا: ہر مہینہ میں تین روزے اور رمضان کے روزے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ہمیشہ کے روزے بھی ہیں اور ہمیشہ کا افطار بھی ہے۔ اس نے پوچھا: عرفہ کے دن کا روزہ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ روزہ گزشتہ اور آئندہ دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔ اس نے پوچھا: یوم عاشوراء (دس محرم) کا روزہ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔
Haidth Number: 3886
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۸۸۶) تخر یـج: اخرجہ مسلم: ۱۱۶۲(انظر: ۲۲۵۳۷)

Wazahat

فوائد:… حدیث کے شروع والے حصے پر غور کریں، دراصل سائل کو اس طرح سوال کرنا چاہیے تھا کہ وہ کتنے اور کیسے روزے رکھے، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی ذات کا اندازہ کر کے اس کے بارے میں کسی لائحہ عمل کی خبر دیتے۔ اس کا براہِ راست یہ سوال کر دینا کہ اس معاملے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادت کیا ہے، جس کی وضاحت میں مصلحتیں نہیں ہیں، مثلا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بسا اوقات وصال کر رہے ہوتے ہیں، جو امت کے لیے ناپسندیدہ ہے، بسا اوقات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لگاتار روزے رکھ رہے ہوتے ہیں، جو عام آدمی کے مشکل ہیں اور بسا اوقات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تسلسل کے ساتھ روزے ترک کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس کی وضاحت سے سائل کو یہ نقصان ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ وہ زندگی بھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اسی رخصت کو اپنائے رکھے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو اس وقت مسلمانوں، مہمانوں اور اپنی بیویوں کے دوسرے حقوق اور مصلحتوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رات کے قیام کو دیکھیں، جس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زیادہ سے زیادہ تیرہ اور کم از کم سات رکعتیں ادا کی ہیں، کم رکعتوں کی وجہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عمر رسیدگی تھی، اس لیے ہر خواہش مند کو دیکھنایہ چاہیے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فلاں مسئلے کے بارے میں مختلف احادیث کے ذریعے کون سا شرعی قانون پیش کیا ہے، اس میں رخصت و عزیمت اور اختیار و اجبار کی صورتوں کو کیسے مد نظر رکھا گیا، ان امور کو سامنے رکھ کر عمل پیرا ہونا چاہیے۔