Blog
Books
Search Hadith

نفلی روزہ شروع کر دینے سے اس کے واجب نہ ہو جانے کا بیان

۔ (۳۸۹۹) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: اُہْدِیَتْ لَحِفْصَۃَ شَاۃٌ وَنَحْنُ صَائِمَتَانِ، فَفَطَّرَتْنِی فَکَانَتِ ابْنَۃُ اَبِیْہَا، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ ذَکَرْنَا ذَالِکَ لَہُ فَقَالَ: ((اَبْدِلَا یَوْمًا مَکَانَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۶۵۳۵)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو ایک بکری کا گوشت بطور ہدیہ پیش کیا گیا، جبکہ ہم دونوں روزے سے تھیں، انہوں نے میرا روزہ افطار کرادیا، آخر وہ اپنے (عظیم باپ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) ہی کی بیٹی تھیں، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس چیز کا ذکر کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے عوض ایک ایک روزہ رکھ لینا۔
Haidth Number: 3899
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۸۹۹) اسنادہ ضعیف، سفیان بن حسین الواسطی ضعیف فی الزھری، وقد اختلف علی الزھری فی وصلہ وارسالہ، وارسالہ ھو الصواب۔ اخرجہ ابوداود: ۲۴۵۷، والترمذی: ۷۳۵(انظر: ۲۶۰۰۷)

Wazahat

فوائد:… اس مسئلہ سے متعلقہ مزید احادیث: سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور چند صحابہ کے لیے کھانا تیار کیا، جب کھانا لگا دیا گیا تو ایک آدمی نے کہا: میرا تو روزہ ہے، یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((ذَالِکُمْ اَخُوْکُمْ وَتَکَلَّفَ لَکُمْ۔)) ثُمَّ قَالَ لَہٗ: ((اَفْطِرْ،وَصُمْمَکَانَہٗیَوْمًا اِنْ شِئْتَ۔)) یہ تمہارا بھائی ہے اور اس نے تمہارے لیے تکلف کیا ہے۔‘‘ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی فرمایا: ’’تو اب روزہ توڑ دے اور اگر تیری چاہت ہو تو اس کی جگہ پر ایک دن روزہ رکھ لینا۔‘‘ (سنن بیہقی: ۴/ ۲۷۹) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَاْتِیَہَا وَہُوَ صَائِمٌ، فَیَقُوْلُ: ((اَصْبَحَ عِنْدَکُمْ شَیْئٌ تُطْعِمُوْنِیْہِ؟)) فَتَقُوْلُ: لاَ، مَا اَصْبَحَ عِنْدَنَا شَیْئٌ کَذَاکَ، فَیَقُوْلُ: ((إِنِّی صَائْمٌ۔)) ثُمَّ جَاَء َہَا بَعْدَ ذَلِکَ (وَفِی رِوَایَۃٍ: ثُمَّ جاَئَ یَوْمًا آخَرَ) فَقَالَتْ: اُہْدِیَتْ لَنَا ہَدِیَّۃٌ فَخَبَأْ نَاہَا لَکَ، قَالَ: ((مَا ہِیَ؟)) قَالَتْ: حَیْسٌ، قَالَ: ((قَدْ اَصْبَحْتُ صَائِمًا۔)) فَاَکَلَ۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روزے کی حالت میں میرے ہاں تشریف لاتے اور پوچھتے: ’’تمہارے ہاں کوئی ایسی چیز ہے جو مجھے کھلا سکو؟ میں کہتی: جی نہیں، ہمارے پاس تو کوئی چیز نہیں ہے، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: ’’تو پھر میں روزے دار ہوں۔‘‘پھر ایک دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس آئے اور میں نے کہا: ہمیں ایک ہدیہ دیا گیا تھا، ہم نے آپ کے لیے چھپا رکھا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: ’’وہ کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: حَیْس ہے، (یعنی کھجور، گھی اور پنیر کا حلوہ)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’آج تو میں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔‘‘ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کھا لیا۔ (مسلم: ۱۱۵۴،مسند احمد: ۲۴۷۲۴) سنن نسائی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ کھانا کھا لیا، تو سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بڑا تعجب ہوا اور انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ میرے پاس روزے کی حالت میں تشریف لائے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حَیْس کھا لیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((نَعَمْ، یَا عَائِشَۃُ! اِنَّمَا مَنْزِلَۃُ مَنْ صَامَ فِیْ غَیْرِ رَمَضَانَ أَوْ غَیْرِ قَضَائِ رَمَضَانَ اَوْ فِیْ التَّطَوُّعِ بِمَنْزِلَۃِ رَجُلٍ اَخْرَجَ صَدَقَۃَ مَالِہٖفَجَادَمِنْھَابِمَاشَائَفَاَمْضَاہُوَبَخِلَمِنْھَابِمَابَقِیَ فَاَمْسَکَہٗ۔)) ’’جی ہاں، عائشہ! جس آدمی نے رمضان اور قضائے رمضان کے علاوہ کوئی نفلی روزہ رکھا ہوا ہو تو وہ اس آدمی کی طرح ہے، جو اپنے مال میں سے صدقہ کے لیے (کچھ رقم) نکالے، لیکن پھر اس میں سے جتنی مقدار چاہے صدقہ کر دے اور جتنی مقدار چاہے روک لے۔‘‘ نسائی کی ایک اور روایت میں ہے: فَاَکَلَ مِنْہُ ثُمَّ قَالَ: ((اِنَّمَا مِثْلُ صَوْمِ الْمُتَطَوِّعِ مِثْلُ الرَّجُلِ یُخْرِجُ مِنْ مَالِہٖالصَّدَقَۃَ فَاِنْ شَائَ اَمْضَاھَا وَاِنْ شَائَ حَبَسَھَا۔)) پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ کھانا کھایا اور فرمایا: ’’نفلی روزہ رکھنے والے کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جو اپنے مال سے صدقہ کے لیے کچھ مال نکالتا ہے، لیکن پھر چاہے تو اسے صدقہ کر دے اور چاہے تو روک لے۔‘‘ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی صدقہ کی نیت سے اپنے مال میں سے کچھ مال علیحدہ کرتا ہے، لیکن ابھی تک اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس سارے معین مال کا صدقہ کر دے یا سارے کو روک لے، یا کچھ روک لے اور کچھ صدقہ کر دے۔ بالکل اسی طرح نفلی روزہ رکھنے والے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ روزہ توڑ بھی سکتا ہے اور پورا بھی کر سکتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفلی روزے کی نیت طلوع فجر کے بعد بھی کسی جا سکتی ہے، لیکنیہ اس صورت میں ہو گا کہ متعلقہ آدمی نے سحری سے لے کر اس وقت تک کھایا پیا نہ ہو۔ اس باب سے ثابت ہوا کہ نفلی روزہ بلا عذر توڑا جا سکتا ہے اور اس کی قضاء بھی لازم نہیں ہے، مستحبّ ہے، سیدنا عمر، سیدنا علی، سیدناعبد اللہ بن مسعود، سیدنا عبد اللہ بن عمر، سیدنا عبدا للہ بن عباس اور سیدنا جابر بن عبداللہ اور امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق اور جمہور اہل علم کییہی رائے ہے۔ البتہ امام ابو حنیفہیہ کہتے ہیں کہ نفلی روزے کو پورا کرنا ضروری ہے اور بلا عذر اس کو افطار نہیں کر سکتا اور اس نے کسی عذر کی وجہ سے روزہ توڑ دیا تو اس کی قضائی لازم ہو گی۔ لیکنیہ مسلک مرجوح ہے۔