Blog
Books
Search Hadith

اس پانی کا حکم جس پر چوپائے اور درندے بھی آتے ہوں اور دو قُلّوں والی حدیث کی تفصیل

۔ (۳۹۲) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا وَکِیْعٌ ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ الْمُنْذِرِ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عن أَبِیْہِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((اِذَا کَانَ الْمَائُ قَدْرَ قُلَّتَیْنِ أَوْ ثَـلَاثٍ لَمْ یُنَجِّسْہُ شَیْئٌ۔)) قَالَ وَکِیْعٌ: یَعْنِیْ بِالْقُلَّۃِ الْجَرَّۃَ۔ (مسند أحمد: ۴۷۵۳)

۔ (دوسری سند) سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب دو یا تین قُلّوں کے بقدر پانی ہو تو کوئی چیز اس کو پلید نہیں کر سکتی۔ وکیع کہتے ہیں: قُلّہ سے مراد مٹی کا گھڑا ہے۔
Haidth Number: 392
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۹۲) حدیث صحیح، وھذا اسناد جید دون قولہ: اوثلاث ، قال الحاکم: وقد رواہ عفان بن مسلم وغیرہ من الحفاظ، عن حماد بن سلمۃ ولم یذکروا فیہ: او ثلاث ۔ وقال البیھقی: وروایۃ الجماعۃ الذین لم یشکوا اولی۔ أخرجہ ابن ماجہ: ۵۱۸، وأخرجہ دون قولہ: اوثلاث ابوداود: ۶۵، وانظر الحدیث بالطریق الاول (انظر: ۴۷۵۳)

Wazahat

فوائد:… اب ہم مائے کثیر اور مائے قلیل کے فرق اور ان کی مقدار کا تعین کرتے ہیں، اگرچہ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک کثیر اور قلیل پانی کے درمیان حد فاصل حدیث ِ قلتین ہے، ہم بھی اسی نظریے کے قائل ہیں، اس کی تفصیل درج ذیل ہے: مائے کثیر (کثیر پانی): وہ ہے جو دو قلے یا اس سے زیادہ ہو‘ ایسا پانی نجاست کے گرنے سے بھی اس وقت تک ناپاک نہیں ہوتا ‘ جب تک اِس نجاست کی وجہ سے اس کا ذائقہ‘ یا رنگ‘ یا بو تبدیل نہیں ہو جاتی۔ مائے قلیل (قلیل پانی): وہ ہے جو دو قلوں (بڑے مٹکوں)سے کم ہو‘ ایسا پانی معمولی نجاست کے گرنے سے بھی ناپاک ہو جاتا ہے‘ اس کا ذائقہ‘ یا رنگ‘ یا بو تبدیل ہو یا نہ ہو۔ مذکورہ بالا تعیین درج ذیل احادیث کی روشنی میں کی گئی ہے:(۱)عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ : ((طُھُوْرُ اِنَائِ اَحَدِکُمْ اِذَا وَلَغَ فِیْہِ الْکَلْبُ اَنْ یَّغْسِلَہٗ سَبْعَ مَرَّاتٍ‘ اُوْلَاھُنَّ بِالتُّرَابِ۔)) …سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اگر کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال لے‘ تو اسے پاک کرنے کیلئے سات دفعہ دھویا جائے‘ پہلی دفعہ مٹی سے مانجھا جائے۔ ایک روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس پانی کو انڈیل دے۔ (صحیح مسلم: ۲۷۹)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قلیل پانی کتے کے منہ ڈالنے سے علی الاطلاق پلید ہو جاتا ہے‘ اس استدلال کی وجہ یہ ہے کہ گھروں میں عام برتنوں کی مقدار دو قلوں سے کم ہوتی ہے۔(۲)اس باب کی پہلی حدیث، جس میں دو قلوں کا ذکر ہے۔ (۳)ممکن ہے کہ بلی کے جوٹھے کا بیان کے عنوان میں مذکورہ احادیث سے بھی یہ استدلال کیا جا سکے، کیونکہ صحابہ یہی سمجھ رہے تھے کہ بلی نجس ہے، لہٰذا اس کا جوٹھا بھی نجس ہو گا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے وضاحت کر دی کی بلی نجس نہیں ہے، جبکہ بلیاں گھروں میں جن برتنوں میں منہ ڈالتی ہیں، وہ چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ (۴) جس حدیث ِ مبارکہ کے مطابق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے جامد چیز میں مر جانے والے چوہے کے ارد گرد والی متأثرہ چیز کو پھینک دینے اور مائع چیز کے قریب نہ جانے کا حکم دیا ہے، اس سے بھی یہ استدلال کیا جائے گا کہ تھوڑی مقدار کی چیز نجس ہو جاتی ہے، کیونکہ عام طور پر اس قسم کی چیزیں قلیل مقدار میں ہوتی ہیں، یہ حدیث نمبر (۴۳۸) میں آ رہی ہے۔علامہ عبد الحئی لکھنوی نے (السعایۃ: ۱/۳۷۷) میں کہا: ہر طرف نظر دوڑانے سے یہی ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے‘ ہر قسم کے معارضہ‘ اجماع کی مخالفت‘ نسخ وتاویل وغیرہ سے سالم ہے۔ اور (عمدۃ الرعایۃ: ۱/۸۱) میں کہا: قلتین والی مقدار صحیح حدیث سے ثابت ہے‘ دہ در دہ (10×10 ہاتھ تالاب) پر کوئی دلیل شرعی نہیں ہے۔ جناب رشید احمد گنگوہی نے کہا: جس حدیث سے امام شافعی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے حجت پکڑی ہے‘ وہ جیّد الاسناد اور قابل اعتماد ہے‘ اس کے بارے میں جو احناف نے جواب دیئے ہیں‘ ان سے طبیعتِ سلیمہ راضی نہیں ہوتی‘ آپ جانتے ہیں کہ یہ تعسف ہے۔ (الکوکب الدری: ۱/۴۰،۴۳ بحوالہ مرعاۃ المفاتیح: ۲/۱۷۵) جن لوگوں نے اس کو مضطرب قرار دیا، تھذیب السنن لابن القیم، تحفۃ الاحوذی اور تعلیق ترمذی لاحمد شاکر میں ان کا جواب دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ جب تک نجاست کی وجہ سے دو قلے یا اس سے زائد پانی کے اوصاف (رنگ، ذائقہ، بو) تبدیل نہیں ہوتے‘ اس وقت تک پانی پاک رہتا ہے‘ محدثین اور فقہاء اس مسئلہ پر متفق ہیں کہ نجاست کی وجہ سے اوصاف بدلنے کی صورت میں پانی پلید ہوجائے گا۔ قلے (مٹکے) کا تعین ابو عبید قاسم بن سلام نے کہا: المراد القلۃ الکبیرۃ اذ لو اراد الصغیرۃ لم یحتج لذکر العدد فان الصغیرتین قد ر واحدۃ کبیرۃ ویرجع فی الکبیرۃ الی العرف عن اھل الحجاز والظاھر ان الشارع علیہ السلام ترک تحدیدھما علی سبیل التوسعۃ والعلم محیط بانہ ما خاطب الصحابۃ الا بما یفھمون فانتفی الاجمال۔ … حدیث میں قلتین سے مراد بڑا مٹکا ہے‘ اگر اس سے مراد چھوٹا مٹکا ہو تا تو دو مٹکوں کی قیدکی کوئی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ دو مٹکے ایک بڑے میں سما سکتے ہیں‘ رہا اِس بڑے مٹکے کے تعین کا مسئلہ تو اسے اہل حجاز کے عرف کی روشنی میں سمجھیں گے‘ معلوم یہی ہو تا ہے کہ شارع نے وسعت کے پیشِ نظر ان کی حدبندی نہیں کی‘ لیکن اتنا تو معلوم ہے کہ صحابہ کرام سے وہی خطاب کیا جائے گا جو وہ سمجھیں گے‘ لہٰذا اس مسئلے میں کوئی اجمال نہ رہا۔ (تحفۃ الاحوذی:۱/۷۰) ازہری نے کہا: القلال مختلفۃ فی قری العرب وقلال ھجر اکبرھا وقلال ھجر مشہورۃ الصنعۃ معلومۃ المقدار والقلۃ لفظ مشترک وبعد صرفھا الی احد معلوماتھا وھی الاوانی تبقی مترددۃ بین الکبار والصغار والدلیل علی انھا من الکبار جعل الشارع الحد مقدارا بعدد فدل علی انہ اشار الی اکبرھا لانہ لا فائدۃ فی تقدیرہ بقلتین صغیرتین مع القدرۃ علی تقدیرہ بواحدۃ کبیرۃ۔ … عرب کی بستیوں میں قلوں کے مختلف سائز تھے‘ ہجر علاقے کے قلے سب سے بڑے تھے‘ یہ مخصوص ڈیزائن اور مخصوص مقدار والے ہوتے تھے‘ قلہ ایک مشترک لفظ ہے جو چھوٹے اور بڑے قلوں کو شامل ہے‘ لیکن حدیث میں اس سے مراد بڑے قلے ہیں‘ کیونکہ شارع علیہ السلام نے ایک تعداد (یعنی دو عدد قلوں) کے ساتھ حدبندی کی ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑا قلہ مراد ہے‘ کیونکہ ایک بڑے قلے کے باوجود دو چھوٹے قلوں کی مقدار کا تعین بے فائدہ ہے۔ (تحفۃ الاحوذی: ۱/ ۷۰) رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں: قلہ کے معنی میں اجمال کو لازم قرار دینا محض تحکم ہے، صحابہ کے نزدیک تو قلہ ایک معلوم چیز کا نام تھا‘ اس کی جہالت تم کو کوئی نقصان نہیں دے گی‘ دوسری روایات میں قلال ھجر کے الفاظ آتے ہیں‘ جو اس اجمال کو بیان کر دیتے ہیں۔ (بحوالہ مرعاۃ المفاتیح: ۲/۱۷۳) علامہ زیلعی حنفی نے کہا: وقال البیہقی فی کتاب المعرفۃ : وقلال ھجر کانت مشہورۃ عند اھل الحجاز، ولشھرتھا عندھم شبہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ما رای لیلۃ المعراج من نبق سدرۃ المنتھٰی… … امام بیہقی نے کتاب المعرفۃ میں کہا کہ حجازیوں کے ہاں ہجر کے قلے مشہور تھے‘اسی شہرت کی بناء پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سدرۃ المنتہی کے پھل‘ جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے معراج والی رات کو دیکھے تھے‘ کو ہجر کے مٹکوں سے تشبیہ دی۔ (نصب الرایۃ: ۱/۱۱۲) خلاصہ کلام: …نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا مقصود ہجر علاقے کے مٹکے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ہجر کے دو قلوں کا وزن امام صنعانی نے کہا: ہجر کے دو قلے تقریبا پانچ سو رطل کے برابر ہوتے ہیں۔ (سبل السلام: ۱/۴۰) اور ایک رطل (۹۰) مثقال کے برابر ہوتا ہے‘ اس حساب سے (۵۰۰) رطل کا وزن تقریبا (۲۱۰) سیر‘ (۱۵) چھٹانک ہے‘ جو جدید وزن کے مطابق تقریبا (184.700) کلوگرام، یعنی (4) من‘ (24) کلو اور (700) گرام بنتا ہے۔فقہ حنفی میں کثیر پانی کی مقدار کے بارے میں درج ذیل تین آراء پیش کی گئی ہیں، کسی رائے کے حق میں کوئی مرفوع روایت پیش نہیں کی گئی:(۱):دہ در دہ (دس ہاتھ مربع تالاب) (۲):اتنا بڑا تالاب ہو کہ ایک کنارے پر دی گئی حرکت کا اثر دوسرے کنارے تک نہ پہنچے۔ حرکت دینے کی کیفیت کے بارے میں بھی تین مختلف اقوال ہیں:(۳):پانی کی جس مقدار کووضوء کرنے والا اپنی سمجھ کے مطابق کثیر سمجھے۔