Blog
Books
Search Hadith

محرم کی (۹)تاریخ کو یوم عاشوراء قرار دینے والوں اور اس سے پہلے یا بعد میں روزہ رکھنے کا بیان

۔ (۳۹۲۷) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ، بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ) إِذْ اَنْتَ اَہْلَلْتَ الْمُحَرَّمَ فَاعْدُدْ تِسْعًا ثُمَّ اَصْبِحْ یَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا۔ اَلْحَدِیْثَ کَمَا تَقَدَّمَ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۴)

۔ (دوسری سند) اس میں ہے: جب تم ماہِ محرم کا چاند دیکھو تو (۹) محرم تک شمار کرتے رہو اور نویں محرم کی صبح روزہ کی حالت میں کرو۔ باقی حدیث اوپر والی ہی ہے۔
Haidth Number: 3927
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۹۲۷) تخر یـج: انظر الحدیث بالطریق الاول

Wazahat

فوائد:… سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا مقصود یہ نہیں ہے کہ (۹) محرم یوم عاشوراء ہے، وہ درج ذیل حدیث اور اس کی تشریح میں مذکورہ احادیث کی روشنی میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ محرم کی (۹) اور (۱۰) تاریخوں کا روزہ رکھا جائے۔ امام شوکانی نے کہا: زیادہ مناسب یہی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس نے اس دن کی طرف سائل کی رہنمائی کی ہے، جس میں روزہ رکھا جاتا ہے اور اس کے لیےیوم عاشوراء کا تعین نہیں کیا کہ وہ محرم کا دسواں دن ہے، کیونکہ اس کے بارے میں تو سوال ہی نہیں کیا گیا، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے یہ سمجھا کہ سائل کا مقصود یہ ہے کہ اس دن کا تعین کیا جائے جس کو روزہ رکھا جائے گا، اس لیے انھوں نے (۹) محرم کی بات کی۔ پھر سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یہ کہنا کہ ’’جی ہاں، محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی طرح روزہ رکھتے تھے۔‘‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زندہ رہتے تو اسی طرح روزے رکھنے تھے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قولی حدیث میں اسی چیز کی وضاحت کی تھی۔ (نیل الاوطار: ۴/ ۳۲۶) درج ذیل حدیث میں یہ ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا میں اگر آئندہ سال زندہ رہا تو نو (تاسع) محرم کا روزہ رکھوں گا۔ اس سے نو اور دس محرم کے دو روزے رکھنے کی تائید نہیں ہوتی۔ بلکہ عاشوراء (دس محرم) کی جگہ صرف نو محرم کے روزے کی تائید ہوتی ہے، ورنہ آپ فرماتے میں نو اور دس محرم کا روزہ رکھوں گا۔