Blog
Books
Search Hadith

محرم کی (۹)تاریخ کو یوم عاشوراء قرار دینے والوں اور اس سے پہلے یا بعد میں روزہ رکھنے کا بیان

۔ (۳۹۲۸) وَعَنْہُ اَیْضًا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَئِنْ بَقِیْتُ إِلٰی قَابِلٍ لَاَصُوْمَنَّ الْیَوْمَ التَّاسِعَ۔)) (مسند احمد: ۱۹۷۱)

۔ سیدنا عبدا للہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نو محرم کو ضرور روزہ رکھوں گا۔
Haidth Number: 3928
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۹۲۸) تخر یـج: اخرجہ مسلم: ۱۱۳۴(انظر: ۱۹۷۱)

Wazahat

فوائد:… آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس عزم کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں: (۱) آئند دس محرم کے ساتھ ساتھ نو محرم کا بھی روزہ رکھیں گے، تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو۔ (۲) آئندہ صرف نو محرم کا روزہ رکھیں گے، تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔ اس لیے سلف صالحین کے ہاں بھییہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے، اگرچہ جمہور علماء و فقہاء کی رائے یہی ہے کہ یوم عاشورا دس محرم ہی ہے، جبکہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کا خیال ہے کہ یوم عاشورا نو محرم ہے۔ جمہور کی رائے راجح معلوم ہوتی ہے، اس صورت میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عزم کا یہ معنی ہو گاکہ ہم دس محرم کے ساتھ ساتھ نومحرم کا بھی روزہ رکھیں گے، تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو سکے، جیسا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہفتہ والے دن روزہ رکھنے سے منع کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مقصود یہودیوں کی مشابہت سے بچنا تھا، جیسا کہ شارح ابوداؤد علامہ عظیم آبادی نے کہا، لیکن پھر اس صورت میں اجازت دے دی کہ اگر اس کے ساتھ جمعہ کے دن کا روزہ رکھا جائے تو ہفتہ کے دن کا روزہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ ایک اور مثال سے اسی مؤقف کی تائیدہوتی ہے: سیدنابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے مروی ہے: …صحابہ نے کہا: اے اللہ رسول! بیشک اہل کتاب چمڑے کے موزے پہنتے ہیں اور جوتے نہیں پہنتے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنْتَعِلُوْا وَتَخَفَّفُوْا وَخَالِفُوْا أَھْلَ اس حدیث میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہل کتاب کی مخالفت کے لیے موزوں کو ترک کی تعلیم نہیں دی، بلکہ ان کے ساتھ جوتوں کے استعمال کا اضافہ کردیا۔ مخالفت کی صورت یہ ہو گئی کہ وہ صرف موزے پہنتے ہیں اور ہم موزے بھی پہنتے ہیں اور جوتے بھیاستعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح دس محرم کے ساتھ ساتھ نو محرم کا روزہ رکھنا بھی اہل کتاب کے ساتھ مخالفت کرنے کی ایک صورت ہے۔ واللہ اعلم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عزم کا پہلا معنی ہی راجح ہے، درج ذیل روایات سے اسی معنی کی تائید ہوتی ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو ایسا کرنے کا حکم دیا تو صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہودی اور عیسائی بھی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں،یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((فَاِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ اِنْ شَائَ اللّٰہُ صُمْنَا التَّاسِعَ۔)) قَالَ: فَلَمْ یَاْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ ’’اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو جب اگلا سال ہو گا، ہم نو کا روزہ رکھیں گے۔‘‘ لیکن ہوا یوں کہ ابھی تک اگلا سال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے تھے۔ معجم کبیر طبرانی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((إِنْ عِشْتُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ إِلٰی قَابِلٍ صُمْتُ التَّاسِعَ، مَخَافَۃَ أَن یَّفُوْتَنِییَوْمُ عَاشُوْرَائَ)) ’’اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو محرم کا روزہ رکھوں گا، تاکہ یوم عاشورا کا روزہ فوت ہو جانے کا خطرہ (ختم ہو جائے)۔‘‘ (صحیحہ:۳۵۰) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: صُوْمُوْا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَخَالِفُوْا الْیَھُوْدَ۔ نو اور دس کو روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔ (سنن بیہقی: ۴/ ۲۸۷) ہفتہ کے ساتھ جمعہ کا روزہ رکھنا اور جوتے اور موزے اکٹھے پہننا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ثابت ہے، اس لیےیہ تو ٹھیک ہے اور مخالفت کییہ بھی ایک صورت ہے اسی طرح نو اور دس محرم کے اکٹھے روزے اگر آپ سے ثابت ہوتے تو ہم کہتے یہ بھی مخالفت کی ایک شکل ہے۔ یہ چونکہ ثابت نہیں اس لیے اس جگہ اصل مخالفت یہ ہے کہ جس دن (دس محرم) کا یہودی روزہ رکھتے ہیں، اس کا روزہ نہ رکھا جائے اور مسلم کی حدیث کا مطلب یہی ہے اور ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے یہی مطلب سمجھا ہے، اس لیے وہ یہ عاشورہ کے بارے سوال کرنے والے کو بتا رہے ہیں کہ نو محرم صبح کوتمہارا روزہ ہونا چاہیے۔ اس حدیث کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر دس کا روزہ رکھیں،یہود کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور اگر نو کا روزہ بھی نہ رکھا جائے تو یوم عاشوراء کا روزہ بالکل رہ جائے گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ عاشوراء کا روزہ بالکل رہ جانے کے خوف سے میں نو کا روزہ رکھوں گا تاکہ مخالفت بھی ہو جائے اور روزہ بھی رکھ لیا جائے۔(عبداللہ رفیق)