Blog
Books
Search Hadith

داود علیہ السلام کے روزوں یعنی ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن نہ رکھنے کا بیان

۔ (۳۹۷۷) (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ): عَنْ اَبِی سَلَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ: قَالَ: فَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ یَصُوْمُ ذَالِکَ الصِّیَامَ حَتّٰی اَدْرَکَہُ السِّنُّ وَالضَّعْفُ، کَانَ یَقُوْلُ: لَاَنْ اَکُوْنَ قََبِلْتُ رُخْصَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ اَہْلِی وَمَالِی۔ (مسند احمد: ۶۸۷۸)

۔ (دوسری سند) سیدناعبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، …سابقہ حدیث کی طرح ہی بیان کیا…،مزید اس میں ہے: سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اسی طرح روزے رکھتے رہے، یہاں تک کہ وہ عمر رسیدہ اور کمزور ہو گئے، اس وقت وہ کہا کرتے تھے: اگر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دی ہو ئی رخصت کو قبول کر لیتا تو یہ مجھے میرے اہل وعیال اور مال و دولت سے زیادہ پسند ہوتا۔
Haidth Number: 3977
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۹۷۷) تخر یـج: حدیث صحیح۔ اخرجہ (انظر: )

Wazahat

فوائد:… دوسری سندوالی پوری حدیثیہ ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ،، سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کے گھر تشریف لے گئے اور ان سے پوچھا: ’’مجھے تمہارے بارے میں یہ ا طلاع ملی ہے کہ تم رات کو قیام کرتے ہو اور دن کو روزہ رکھتے ہو۔‘‘ انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے لیےیہی عمل کافی ہے کہ تم ایک ماہ میں تین روزے رکھ لیا کرو، چونکہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا ملتا ہے، اس لیے گویا کہ یہ سارے زمانے کے روزے ہو جائیں گے۔‘‘ انھوں نے کہا: لیکن میں نے اپنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سختی کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی مجھ پر سختی کی، میں نے کہا: میرے اندر مزید طاقت ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’تو پھر تجھے ہر ہفتہ سے تین روزے کفایت کریں گے۔‘‘ لیکن میں نے مزید سختی کی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی مجھ پر سختی کی، میں نے کہا: مجھ میں اس سے زیادہ عمل کی طاقت موجود ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بہترین روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں،یعنی نصف زمانہ کے روزے۔‘‘ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’تیرے نفس کا تجھ پر حق ہے اور تیرے اہل کا تجھ پر حق ہے۔‘‘ بہرحال سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یہی روزے رکھتے رہے، لیکن جب وہ عمرہ رسیدہ اور کمزور ہو گئے تو وہ کہا کرتے تھے: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رخصت قبول کر لی ہوتی تو یہ مجھے میرے اہل و مال سے بہتر تھی۔ یہ وجہ زیادہ اچھی لگتی ہے کہ ایک ایک ناغے سے روزہ رکھنے سے روزوں کی کثرت بھی ہوگی اور یہ کثرت عین مطلوب ہے اور زیادہ مشقت اور کمزوری بھی نہیں ہوگی کیونکہ روزوں کے درمیان ناغہ کر لینے سے روزہ رکھنے سے لاحق ہونے والی کمزوری ساتھ ساتھ دور ہوتی جائے گی اور دیگر حقوق بھی متاثر نہیں ہوں گے۔ (عبداللہ رفیق)