Blog
Books
Search Hadith

اعتکاف اور ماہِ رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت کا بیان اعتکاف کی فضیلت اور اس کے زمان و مکان کا بیان

۔ (۳۹۹۵) عَنْ عَائِشَۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعْتَکِفُ فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ وَیَقُوْلُ: ((اِلْتَمِسُوْہَا فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ۔)) یَعْنِیْ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ۔ (مسند احمد: ۲۴۷۳۷)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے، نیز آپ فرمایا کرتے تھے کہ تم شب ِ قدر کو آخری دس راتوں میں تلاش کیا کرو۔
Haidth Number: 3995
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۹۹۵) تخر یـج: اخرجہ البخاری: ۲۰۱۹، ومسلم: ۱۱۷۲(انظر: ۲۴۲۳۳)

Wazahat

فوائد:… اس باب سے معلوم ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے، مزید احکام کا بیان اگلے باب میں آ رہا ہے۔ اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اعتکاف واجب نہیں ہے اور رمضان کے آخری عشرے میں مؤکد مستحبّ ہے۔ لیکن نذر کا اعتکاف فرض ہو جائے گا اور عدم ادائیگی کی صورت میں قسم والاکفارہ ادا کرنا پڑے گا۔ کون سی مسجد میں اعتکاف کیا جائے؟ سیدناحذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَااِعْتِکَافَ إِلاَّ فِی الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَۃِ۔)) ’’اعتکاف نہیں ہے، مگر تین مساجد میں۔‘‘ (سنن بیہقی: ۴/ ۳۱۶، صحیحہ:۲۷۸۶) تین مساجد سے مراد مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی ہیں۔ بلاشبہ اعتکاف کے لیے صرف مسجد کا ہی انتخاب کیا جائے گا، نہ کہ گھر کا۔ جمہور کا مؤقف یہ ہے کہ ہر مسجد میں اعتکاف جائز ہے، کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ} (سورۂ بقرہ: ۱۸۷) ’’عورتوںسے اس وقت مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں ہو۔‘‘چونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے مساجد کا عام ذکر کیا ہے، لہٰذا ہر مسجد میں اعتکاف جائز ہو گا۔ جبکہ امام البانی وغیرہ کا خیال ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں اعتکاف صرف تین مساجد(مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصی) میں جائز ہے، اس حدیث نے آیت کے عموم کو خاص کر دیا ہے۔ جمہور نے اس حدیث کا یہ جواب دیا ہے کہ اس سے مراد افضل اور اکمل اعتکاف ہے جو ان تین مساجد میں کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا اَمَانَۃَ لَہٗ۔)) ’’جسآدمی میں امانت نہ ہو، اس کا تو کوئی ایمان نہیں ہوتا۔ یعنی اس کا ایمان افضل اور اکمل نہیں ہوتا۔‘‘(دیکھئے: صحیحہ: ۲۷۸۶) (واللہ اعلم بالصواب) اعتکاف کا اہتمام صرف مسجد میں کیا جائے، عورتوں کے لیے گھروں میں اعتکاف کی کوئی رخصت نہیں ہے، امہات المؤمنین بھی مسجد میں ہی اعتکاف کرتی تھیں، اگر کسی علاقے میں کسی فتنے کا ڈر ہو تو خواتین کو اعتکاف نہیں کرنا چاہیے۔ اعتکاف کی کوئی خاص مقدار یا خاص وقت نہیں ہے، یعنی سال کے کسی بھی مہینے میں اعتکاف کیا جا سکتا ہے، اور معتکف اپنی مرضی کے مطابق کم یا زیادہ دنوں کا تعین کر سکتا ہے، جیساکہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو یہ نذر پوری کرنے کا حکم دیا تھا۔ اعتکاف کے ساتھ روزہ رکھنے کی شرط لگانا درست نہیں ہے اور نہ روزہ اعتکاف کی نیت میں داخل ہے، اس ضمن میں ذکر کی جائے والی حدیث ِ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا مرفوعا ضعیف ہے۔