Blog
Books
Search Hadith

جائے اعتکاف میں داخل ہونے کے وقت کا بیان، نیز جو شخص اس کا عادی ہو اور اس سے بوجہ عذر رہ جائے تو اس کی قضائی کے مستحب ہونے کا بیان

۔ (۳۹۹۶) عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا اَرَادَ اَنْ یَعْتَکِفَ صَلَّی الصُّبْحَ ثُمَّ دَخَلَ فِی الْمَکَانِ الَّذِیْیُرِیْدُ اَنْ یَعْتَکِفَ فِیْہِ، فَاَرَدَا اَنْ یَعْتََکِفَ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ فَاَمَرَ فَضُرِبَ لَہُ خِبَائٌ، وَاَمَرَتْ عَائِشَۃُ فَضُرِبَ لَہَا خِبَائٌ، وَاَمَرَتْ حَفْصَۃُ فَضُرِبَ لَہَا خِبَائٌ، فَلَمَّا رَاَتْ زَیْنَبُ خِبَائَہُمَا اَمَرَتْ فَضُرِبَ لَہَاخِبَائٌ، فَلَمَّا رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَالِکَ قَالَ: ((آلْبِرَّ تُرِدْنَ؟)) فَلَمْ یَعْتَکِفْ فِی رَمَضَانَ وَاعْتَکَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۲۲)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو نمازِ فجر پڑھنے کے بعد جائے اعتکاف میں داخل ہوتے ، ایک دفعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا ارادہ کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم پر ایک خیمہ نصب کر دیا گیا، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی خیمہ لگا دیا گیا،پھر سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے حکم دیا تو ان کے لیے بھی خیمہ نصب کر دیا گیا، جب سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کے خیمے دیکھے تو انہوں نے بھی اپنے لیے خیمہ لگانے کا حکم دیا، پس ان کے لیے بھی خیمہ لگا دیا گیا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ حال دیکھا تو فرمایا: کیا تم نیکی کا ارادہ رکھتی ہو؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس رمضان میں اعتکاف نہ کیا اور (اس کی قضائی دیتے ہوئے) شوال میں دس دن کا اعتکاف کیا۔
Haidth Number: 3996
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۳۹۹۶) تخر یـج: اخرجہ البخاری: ۲۰۴۵، ومسلم: ۱۱۷۳(انظر: ۲۵۸۹۷)

Wazahat

فوائد:… آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کویہ خطرہ محسوس ہوا کہ امہات المؤمنین کے اعتکاف کی بنیاد فخر اور مقابلہ بازی ہے، اس وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سرے سے اعتکاف ہی ترک کر دیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی مصلحت کے لیے افضل کام کو بھی چھوڑا جا سکتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اعتکاف شروع کردینے سے یا اس کی نیت کر لینے سے واجب نہیں ہو جاتا۔ آخری عشرے کا آغازبیسویں روزے کی شام کو ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اعتکاف کرنے والے یہ روزہ افطار کرنے سے پہلے یعنی اکیسویںرات شروع ہونے سے پہلے مسجد میں پہنچ جاتے ہیں، لیکن اس حدیث کے ابتدائی حصے سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نمازِ فجر پڑھ کر جائے اعتکاف میں داخل ہوتے تھے، اس اشکال کے درج ذیل مختلف جوابات دیئے گئے ہیں: (۱)آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پوری اکیسویں رات کو اپنے خیمے سے باہر مسجد میں قیام کرتے رہے، پھر نمازِ فجر پڑھ کر خیمے میں داخل ہوئے، یہی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ (۲)اعتکاف کا آغاز ہی نمازِ فجر سے ہوتا ہے، یہ امام اوزاعی اور امام ثوری وغیرہ کا خیال ہے۔