Blog
Books
Search Hadith

کتے کے جوٹھے کا بیان

۔ (۴۰۱)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ قَالَ: کُنْتُ أَعْزَبَ شَابًّا أَبِیْتُ فِی الْمَسْجِدِ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَکَانَتِ الْکِلَابُ تُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فَلَمْ یَکُوْنُوْا یَرُشُّوْنَ شَیْئًا۔ (مسند أحمد:۵۳۸۹)

سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک اہل و عیال کے بغیر، نوجوان تھا اور عہد ِ نبوی میں مسجد میںرات گزارتا تھا، کتے (مسجد میں) آتے جاتے رہتے تھے، لیکن وہ اس سے (پانی کے) چھینٹے نہیں مارتے تھے۔
Haidth Number: 401
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۰۱) تخریج:حدیث صحیح ۔ أخرجہ بتمامہ ابوداود: ۳۸۲، وقولہ: کنت اعزب شابا ابیت فی المسجد أخرجہ بنحوہ مطولا البخاری: ۱۱۲۱، ۳۷۳۸، ومسلم: ۲۴۷۹، وقولہ: وکانت الکلاب تقبل و تدبر …۔ علقہ البخاری بصیغۃ الجزم: ۱۷۴ (انظر: ۵۳۸۹)

Wazahat

فوائد:…اس حدیث کی فقہ یہ ہے کہ اگر ہوا یا سورج کی وجہ سے نجاست کے آثار زائل ہوجائیں تو زمین پاک ہو جائے گی، جبکہ زمین کے اندر بھی نجاست کو ختم کر دینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، امام ابوداود نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے: باب فی طھور الارض اذا یبست … (جب زمین خشک ہوجائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے)امام مبارکپوریؒ نے کہا: استدلال ابی داود بھذا الحدیث علی ان الارض تطھر بالجفاف صحیح‘ لیس فیہ عندی خدشۃان کان فیہ لفظ تبول محفوظا ولامخالفۃ بین ھذا الحدیث وحدیث الباب فانہ یقال: ان الارض تطھر بالوجھین اعنی بصب الماء علیھاوبالجفاف والیبس بالشمس او الھواء واللہ تعالیٰ اعلم۔ یعنی اگر تبول کے الفاظ محفوظ ہیں تو اس حدیث سے امام ابوداود کا یہ استدلال صحیح ہے کہ زمین خشک ہونے سے پاک ہو جاتی ہے‘ مجھے اس میں کوئی خدشہ نہیں‘ یادرہے کہ اِس حدیث اور باب میں مذکور (سیدنا انسؓ والی مذکورہ بالا) حدیث اور (سیدنا ابو ہریرہ ؓ کی اعرابی والی حدیث، جس کے مطابق اعرابی کے مسجد میں کیے گئے پیشاب پر پانی گرایا گیا تھا) میں کوئی تضاد اور مخالفت نہیں‘ کیونکہ یہ کہنا ممکن ہے کہ زمین پاک ہونے کے دوطریقے ہیں: اس پر پانی بہادیا جائے یا وہ سورج اور ہوا کے ذریعے خشک ہو جائے۔ واللہ اعلم (تحفۃ الاحوذی: ۱/۱۳۹) جب مسجد ِ نبوی میں ایک صحابی نے پیشاب کیا تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس پر پانی کا ڈول انڈیل دینے کا حکم دیا تھا، لیکن اس حدیث میں اس چیز کا اہتمام نہیں کیا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کتا پیشاب کرتا ہے تو اس کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ زمین پر چھینٹے پڑتے ہیں، جن کے آثار جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ کتوں کا مسجد ِ نبوی میں گھس آنا، اس امر پر اس آدمی کو کوئی تعجب نہیں ہو گا، جس کا گھر ایسے گاؤں میں ہو، جس میں موجود مسجد کی چاردیواری اور دروازے نہ ہوں، جبکہ وہ مسجد کچی بھی ہو، دراصل خیال رکھنے کے باوجود ایسی مساجد میں بسا اوقات ایسے جانور گھس آتے ہیں، اب بھی ایسی صورتحال موجود ہے کہ گاؤں میں جب کسی مسجد کا دروازہ کھلا رہ جائے تو مرغیاں اور بلیاں صفوں پر اور صحن میں گندگی پھیلا دیتے ہیں اور اگر رات کو دروازہ کھلا رہ جائے تو بسا اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ جنگلی درندے مسجد میں گندگی پھیلا جاتے ہیں، اب جس مسجد کی چاردیواری ہی نہ ہو، اس کا معاملہ تو واضح ہی ہے، جیسے دروازہ کھلا رہ جانے کا یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ وہاں کے نمازی محتاط نہیں ہیں، اسی طرح اس حدیث سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ صحابۂ کرام اس چیز کو برقرار رکھتے تھے کہ کتے مسجد میں آتے جاتے رہیں اور پیشاب کرتے رہیں۔ جن احادیث میں متاثرہ جگہ کو کھودنے کا حکم دیا گیا ہے‘ وہ ناقابل حجت اور ضعیف ہیں۔