Blog
Books
Search Hadith

حج سے پہلے، اس کے بعد اور اس کے ساتھ، غرضیکہ سال کے تمام مہینوں میںعمرہ کے جواز کا بیان

۔ (۴۱۰۴) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ طَاؤُوْسٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَنَّہَا أَہَلَّتْ بِعُمْرَۃٍ، فَقَدِمَتْ وَلَمْ تَطُفْ بِالْبَیْتِ حَتّٰی حَاضَتْ، فَنَسَکَتِ الْمَنَاسِکَ کُلَّہَا وَقَدْ أَہَلَّتْ بِالْحَجِّ، فَقَالَ لَہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَالنَّحْرِ: ((یَسَعُکِ طَوَافُکِ لِحَجِّکِ وَلِعُمْرَتِکِ۔)) فَأَبَتْ، فَبَعَثَ بِہَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ إِلَی التَّنْعِیْمِ فَاعْتَمَرَتْ بَعْدَ الْحَجِّ۔ (مسند احمد: ۲۵۴۴۵)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرے کا احرام باندھا، لیکن جب وہ مکہ پہنچیں تو ابھی تک انہوںنے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا کہ وہ حائضہ ہو گئیں، پھر انہوں نے حج کا احرام باندھ لیا اور تمام مناسک ادا کئے، دس ذوالحجہ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ تمہارا طواف تمہارے حج اور عمرے دونوں کے لیے کافی ہو گا۔ لیکن انھوں نے اس چیز کو تسلیم نہ کیا، اس لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں حج کے بعد ان کے بھائی عبد الرحمن کے ساتھ تنعیم بھیجا، اس طرح انھوں نے عمرہ کیا۔
Haidth Number: 4104
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۱۰۴) تخریج: أخرجہ مسلم: ۱۲۱۱(انظر: ۲۴۹۳۲)

Wazahat

فوائد: …یہی مفہوم رکھنے والی ایک اور حدیث درج ذیل ہے، جو اسی کتاب کی حدیث نمبر (۴۱۶۸) ہے: سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کے پاس تشریف لائے، جبکہ وہ رو رہی تھیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ’’کیا بات ہے، رو رہی ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: لوگ حلال ہو گئے ہیں، لیکن میں حلال نہ ہو سکی اور انہوں نے بیت اللہ کا طواف بھی کر لیا ہے ، لیکن میں طواف نہ کر سکی اور اب حج کے دن بھی آ گئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’بیشک اللہ تعالی نے اس چیز کو بناتِ آدم پر مقرر کیا ہے،اب تم غسل کرکے حج کا احرام باندھ لو اور حج ادا کرو۔‘‘ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کہتی ہیں: میں نے اسی طرح کیا، پھر جب میں حیض سے پاک ہو گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((طُوْفِی بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ ثُمَّ قَدْ أَحْلَلْتِ مِنْ حَجِّکِ وَمِنْ عُمْرَتِکِ۔)) قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی أَجِدُ فِی نَفْسِی مِنْ عُمْرَتِی أَنِّی لَمْ أَکُنْ طُفْتُ حَتّٰی حَجَجْتُ، قَالَ: ((فَاذْہَبْ یَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ! فَأَعْمِرْ أُخْتَکَ مِنَ التَّنْعِیْمِ۔))… ’’اب تم بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کر لو، اس طرح تم حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہو جائو گی۔‘‘ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے دل میں یہ کھٹکا سا ہے کہ میں عمرہ کا احرام باندھنے کے باوجود بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی،یہاں تک کہ میں حج سے فارغ ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’عبد الرحمن! جائو اور اپنی بہن کو تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ۔‘‘ (مسلم: ۱۲۱۳، دیکھئے: حدیث نمبر ۴۱۶۸) اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا حج کے لیے خروج تک حائضہ ہی رہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو حکم دیا کہ وہ حج قران شروع کر دیں، جس میں عمرہ بھی ادا ہو جائے گا، لیکن جب سیدہ نے اس خواہش کا اظہارکیا کہ وہ الگ سے عمرہ ادا کرنا چاہتی ہے اور اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ حج کے بعد عمرہ کرنے میں مشرکوں کی مزید مخالفت بھی ہے، کیونکہ وہ اشہر الحج سمیت ذوالحجہ کے آخر تک عمرہ کرنے کو سب سے بڑا گناہ سمجھتے تھے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ کی درخواست قبول کی اور ان کو عمرہ کرنے کا موقع فراہم فرمایا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس طرح کا عمرہ کرنا حائضہ خاتون کے ساتھ خاص نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے حیض کی وجہ سے عمرہ فسخ کر کے صرف حج کا احرام باندھ لیا تھا، اس طرح وہ عمرہ ادا نہیں کر سکی تھیں، اس لیے انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عمرہ کرنے کی اجازت طلب کیاور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اجازت دے دی، لہٰذا یہ رخصت صرف اس قسم کی صورتحال میں مبتلا ہو جانے والی خواتین کے لیے ہیں۔ لیکن اس حدیث ِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ یہ رائے درست نہیں ہے، کیونکہ سیدہ نے تو حج قران میں ایک عمرہ کر لیا تھا، لیکن ان کی رغبت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسرا عمرہ کرنے کی اجازت دے دی تھی، اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ یہ رخصت صرف اس قسم کی حائضہ خواتینکے لیے ہے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی تو حج قران ہی کیا تھا، دوسری بات یہ ہے کہ حج قران کرنے کے بعد عمرہ کرنے والی درخواست صرف سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے پیش کی، اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ کوئی اور آدمی اس قسم کا عمرہ نہیں کر سکتا ہے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا مقصد یہ تھا کہ وہ دونوں عبادتوں کو الگ الگ مستقل طور پر سرانجام دیں، تاکہ ان کے لیے زیادہ مشقت اٹھانا پڑے اور اس طرح زیادہ اجر و ثواب ملے۔اگر اس واقعہ کے تمام طرق کو جمع کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ واقعہ دراصل مسافر لوگوں کے لیے عمرہ کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے وقوع پذیر ہوا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک دفعہ کوئی بات ارشاد فرمانا، ایک دفعہ کوئی فعل سرانجام دینا اور ایک دفعہ کسی امر کی اجازت دینا، اس عمل کے مسنون ہونے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ تنبیہ: …جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا حیض کی وجہ سے الگ سے عمرہ ادا نہ کر سکیں تو انھوں نے حلال ہوئے بغیر حج قران کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، جیسا کہ امام نووی نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرمان ’’عائشہ! تم اپنا عمرہ چھوڑ دو۔‘‘ کا یہ معنی نہیں کہ وہ کلی طور پر احرام سے خارج ہو گئی تھیں، کیونکہیہ نہیں ہو سکتا کہ احرام کے بعد حج اور عمرہ سے خروج کی نیت کر لی جائے، بلکہ ان سے حلال ہونے کا طریقہیہ ہے کہ ان کی ادائیگی کو مکمل کیا جائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ سیدہ اب عمرے کے اعمال یعنی طواف، سعی اور تقصیر کو ترک کر دے اور حج کا تلبیہ شروع کر دے، اس طرح وہ حج قران کرنے والی بن جائے گی اور طواف کے علاوہ سارے مناسک ِ حج ادا کرے گی، جب پاک ہو جائے گی تو طواف کرے گی اور سیدہ نے اسی طرح کیا تھا۔ (شرح مسلم للنووی: ۸/ ۱۳۹)