Blog
Books
Search Hadith

زمین کو پیشاب کی نجاست سے پاک کرنے کا بیان

۔ (۴۱۳)۔عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ قَالَ: جَائَ أَعْرَابِیٌّ فَبَالَ فِی الْمَسْجِدِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((أَہْرِیْقُوْا عَلَیْہِ ذَنُوْبًا أَوْ سَجْـلًا مِنْ مَائٍ۔)) (مسند أحمد: ۱۲۱۰۶)

سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک بدّو آیا اور اس نے مسجد میں پیشاب کر دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: پانی کا ایک ڈول اس پر بہاد و۔
Haidth Number: 413
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۱۳) تخریج: أخرجہ البخاری: ۲۲۱، ومسلم: ۲۸۴ (انظر: ۱۲۰۸۲)

Wazahat

فوائد:…روایات کے سیاق و سباق سے پتہ چل رہا ہے کہ اس بدّو کو اسلام کے احکام کا علم نہیں تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس کو مسجد کے آداب کی تعلیم دی۔ زمین کو پاک کرنے کے دو طریقے ہیں، ایک طریقہ حدیث نمبر (۴۰۱) میں گزر چکا ہے اور اس باب کی احادیث کے مطابق دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زمین پر پڑے ہوئے پیشاب پر پانی ڈال دیا جائے، اس طرح کرنے سے نجاست کے بعض اجزاء زمین میں جذب ہو جائیں گے اور بعض پانی کے ساتھ زمین پر بکھر کر زائل ہو جائیں گے اور زمین پاک ہو جائے گی، وہ زمین سخت ہو یا نرم۔ جن روایات میں زمین کو کھودنے کا ذکر ہے، وہ ضعیف ہیں۔ ان احادیث میں تبلیغ و اصلاح کرنے والے لوگوں کو جس حکمت، دانائی اور حسن اخلاق کی تعلیم دی جا رہی ہے، مجموعی لحاظ سے امت ِ مسلمہ ان سے بری طرح غافل ہے، ہم اس طرح کی حرکت دیکھ کر سب سے پہلے اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے جھاگ بہانا شروع کر دیتے ہیں۔ والدین، اساتذہ، بڑے بھائیوں، آجروں اور دوسرے نگران اور کفیل لوگوں نے اصلاح کا یہ واحد طریقہ ایجاد کیا ہوا ہے کہ ماتحت افراد کا جرم دیکھ کر بولنا شروع کر دیا جائے، توہین آمیز کلمات کہے جائیں، ہو سکے تو پٹائی بھی کی جائے اور مجرم کی عزت اور شخصیت کو خاک میں ملا دیا جائے۔ یاد رکھ لیں کہ اس طریقے سے نگران کا غصہ تو دور ہو سکتا ہے، اصلاح نہیں ہو سکتی۔ شریعت نے غصے ہونے اور مارنے کی بھی اجازت دی ہے، لیکن وہ طریقہ اپنانے کے لیے حکیم اور دانا ہونا ضروری ہے۔ غور کریں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اور صحابہ کی موجودگی میں مسجد نبوی میں پیشاب کر دینا کوئی معمولی جرم ہے؟ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس شخص کو ڈانٹنا گوارا نہیں کیا، بلکہ دوسرے صحابہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ مسجد کو پاک کرنے کا اہتمام کریں اور خود اس کو اچھے انداز میں سمجھانا شروع کر دیا۔ ہمارے ہاں تو جو بچہ مسجد میں شور کرے یا اس کا پیشاب نکل جائے تو اس بچے کو اور اس کے والدین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا لیا جاتاہے اور اگر والد موجود ہو تو وہ وہیں اپنے بچے کو زد و کوب کرنا شروع کر دیتاہے، جو آدمی موبائل بند نہ کر سکے اور دورانِ نماز اس کی گھنٹی بج جائے تو سلام کے فوراً بعد مستقل نمازی مسجد کو سر پر اٹھا لیتے ہیں، ان بیچاروں کو اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ ان کے بولنے سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ یقین مانیں کہ مبلغ اور مُصلِح افراد کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی اس حکمت سے جو سبق حاصل کرنا چاہیے، اس کو قلم بند نہیں جا سکتا ہے، یہ ایک سوچ اور فکر ہے، جو ضمیروں میں پیوست ہو جانی چاہیے جو ہر بدی کا مقابلہ کرتے وقت زندہ ہو جائے۔