Blog
Books
Search Hadith

حج تمتع کا بیان

۔ (۴۲۱۰) عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ قَالَ: إِنَّا لَبِمَکَّۃَ إِذْ خَرَجَ عَلَیْنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما فَنَھٰی عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ وَأَنْکَرَ أَنْ یَکُوْنَ النَّاسُ صَنَعُوْا ذٰلِکَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَبَلَغَ ذَالِکَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، فَقَالَ: وَمَا عَلِمَ ابْنُ الزُّبَیْرِ بِہٰذَا؟ فَلْیَرْجِعْ إِلٰی أُمِّہِ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِیْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما فَلْیَسْأَلْہَا فَإِنْ لَمْ یَکُنِ الزُّبَیْرُ قَدْ رَجَعَ إِلَیْہَا حَلَالًا، وَحَلَّتْ، فَبَلَغَ ذَالِکَ أَسْمَائَ فَقَالَتْ: یَغْفِرُ اللّٰہِ لِابْنِ عَبَّاسٍ ، وَاللّٰہِ! لَقَدْ أَفْحَشَ، قَدْ وَاللّٰہِ! صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ، لَقَدْ حَلُّوا وَأَحْلَلْنَا وَأَصَابُوْا النِّسَائَ۔ (مسند احمد: ۱۶۲۰۲)

۔ اسحاق بن یسار کہتے ہیں: ہم مکہ مکرمہ میں تھے کہ سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے ہاں تشریف لائے اور حج تمتع کرنے سے منع کیا اور انہوں نے اس بات کا بھی انکار کیا کہ لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایسا حج کیا ہو، جب یہ بات سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا: ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس کا کیا علم؟ اسے چاہیے کہ وہ اپنی ماں اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے جا کر پوچھ لے، اگر سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے احرام نہ کھولا ہو اور ان کی ماں نے کھول دیا ہو۔ جب یہ بات سیدہ اسماء نے سنی تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو معاف فرمائے، انھوں نے نامناسب بات کی ہے، بہرحال اللہ کی قسم ہے کہ انھوں نے سچی بات کی ہے، لوگوں نے واقعی احرام کھول دیئے تھے اور ہم نے بھی احرام کھول دیتے تھے اور لوگوں نے اپنی بیویوں سے ہم بستری بھی کی تھی۔
Haidth Number: 4210
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۲۱۰) تخریج: اسنادہ حسن (انظر: ۱۶۱۰۳)

Wazahat

فوائد: …یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ چند ابواب پہلے اس باب میں گزر چکی ہے: ’’حج تمتع، حج افراد اور حج قران میں سے کوئی ایک ادا کر لینے کا اختیار دینے کا بیان‘‘ اس باب کی دوسری حدیث دیکھیں۔ ’’انھوں نے نامناسب بات کی ہے۔‘‘ اس سے ان کی مراد دو باتوں میں سے ایک ہو سکتی ہے: (۱) اسے چاہیے کہ وہ اپنی ماں اسماء سے پوچھ لے، اس کے نامناسب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌اور سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے حق زوجیت ادا کیا ہو گا، جبکہ اس طرح کا اشارہ نہیں کرنا چاہیے۔ (۲)اس بات سے یہ سمجھ آ رہی ہے کہ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ بھی حلال ہو گئے تھے، جبکہ وہ حلال نہیں ہوئے تھے، دیکھیں حدیث نمبر(۴۲۱۳)۔